بلوچستان سائیکلنگ ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری جان عالم نے اپنے ایک بیان میں حیرت کا اظہار کیا ہے کہ قومی گیمز کوئٹہ میں منعقد ہونے جا رہے ہیں،
یہ کھیل پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام منعقد کئے جائیں گے، مگر یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ بلوچستان میں تو اولمپک کا نام و نشان ختم ہو چکا ہے جعلی لوگ جن میں شیر محمد ترین، سہیل احمد اور گل کاکڑہیں یہ سب ایسے لوگ ہیں
انہوں نے بلوچستان میں کھیلوں کوبہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے،
انہوں نے سپورٹس کو کاروبار بنایا ہوا ہے، کئی کئی کھیلوں کی ایسوسی ایشن کے بیک وقت عہدیدار بننے ہوئے ہیں اور ملی بھگت سے محکمہ کھیل سے ہر سال لاکھوں روپے فنڈ بھی نکلوا رہے ہیں،
ان افراد کی موجودگی میں بلوچستان میں کھیل کبھی بھی ترقی نہیں سکے گا، گل کاکڑ کو دیکھ لیں رسہ کشی کی ایسوسی ایشن کے ساتھ ساتھ بلوچستان کرکٹ ایسوسی ایشن کا بھی اہم عہدیدار ہے اور ساتھ ہی سائیکلنگ میں بھی ہاتھ پاؤں مار رہا ہے،
یہی حال پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کا ہے کہ انہوں نے ایک نااہل باڈی کوئٹہ میں بلوچستان اولمپک ایسوسی ایشن کے نام پر بٹھائی ہوئی ہے، ایسے افراد کو انہوں نے بلوچستان اولمپک ایسوسی ایشن دی ہے کہ جو ان کی غلامی کریں،
جبکہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن بھی نہیں چاہتی کہ بلوچستان سے اچھے کھلاڑی آگے آئیں، کیونکہ بلوچستان کے سائیکلنگ کے کھلاڑی اس وقت بہترین کھلاڑی مانے جاتے ہیں،
پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن ہوش کے ناخن لے اور جو اصل اور جینون ایسوسی ایشن اور فیڈریشن ہیں اور جو ورلڈ باڈی سے منسلک ہیں، ان سے ہی متعلقہ گیمز کروائے جائیں، نا کہ دو نمبر کمیٹی بنا کر اصل کھلاڑیوں کا حق غضب کر کے ان کے ارمانوں کا خون کر دیں،
پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کو اپنی اس دھوکہ دہی، جھوٹ اور فراڈ کا بہرصورت حساب دینا ہو گا،کہ آخر وہ کب تک یہ ظلم کرتا رہے گا،کب تک جعلی کمیٹی بنا کردوسرے کھیلوں پر قبضہ کرتا رہے گا،
آخر میں حکومت بلوچستان سے پرزور مطالبہ ہے کہ شیر محمد ترین، گل کاکڑ اور سہیل احمد سے گزشتہ 30سالوں کا حساب لیا جانا چاہیے کہ انہوں نے حکومت سے کروڑوں روپے کا فنڈ تو لیا مگر بدلے میں انہوں نے اس غریب صوبے کو کیا دیا،ان کی کارکردگی صفر ہے مگر اس کے باوجود بھی بلوچستان اولمپک ایسوسی ایشن پر ناجائز قبضہ جما کر آئین اور قانون کی دھجیاں اڑ رہے ہیں