مختصر کرکٹ کیریئر میں شاندار کارکردگی دکھانے والے تسلیم عارف

اختر علی خان
پاکستان کرکٹ ٹیم نے دنیائے کرکٹ کو بڑے بڑے نام دیئے ہیں انہی میں ایک نام تسلیم عارف ہے جنہوں نے پاکستان کی جانب سے صرف چھ ٹیسٹ میچ کھیلے مگر ان چھ ٹیسٹ میچوں میں ایسی کارکردگی دکھائی کہ شائقین کرکٹ آج تک اس کارکردگی کے سحر میں مبتلا ہیں، تسلیم عارف نے اپنے کرکٹ کیرئر کا آغاز بطور بلے باز کیا تھا اور 1979-80 میں دورہ بھارت کے دوران انہوں نے پہلی اننگز میں 90 اور دوسری اننگز میں 46 رنز بنا کر سب کو حیران کردیا تھا تاہم اس شاندار بیٹنگ کارکردگی کو بعد جہاں تسلیم عارف کو بطور بے باز کا بوجھ اٹھانا پڑا وہاں انہیں وکٹ کے عقب میں بھی خدمات انجام دینا پڑیں اور پھر جب تک پاکستان کیلئے کھیلے بطور وکٹ کیپر بلے باز ہی کھیلے، تسلیم عارف کی وجہ شہرت دراصل آسڑیلیا جیسی مضبوط ٹیم کیخلاف 210 رنز کی ناقابل شکست اننگز تھی جو سات گھنٹوں پر مشتمل تھی، اس وقت کسی بھی وکٹ کیپر بلے باز کی جانب سے کھیلی جانے والی یہ سب سے بڑی اننگز قرار پائی تھی تاہم اس کے بعد 2000-01میں زمبابوے کے وکٹ کیپر بلے باز اینڈی فلاور نے 232 رنز سکور کرکے یہ ریکارڈ اپنے نام کرلیا تھا ، صرف چھ ٹیسٹ میچ کھیلنے والے تسلیم عارف نے کھیلی گئی دس اننگز میں دو بار ناٹ آئوٹ رہتے ہوئے 62.62 کی اوسط سے 501 ایک رنز سکور کئے جس میں 210 رنز ناٹ آئوٹ ان کا بہترین سکور تھا ، انہوں نے کیریئر میں ایک سنچری اور دو نصف سنچریاں سکور کیں ، تسلیم عارف کو پاکستان کی جانب سے دو ون ڈے میچ کھیلنے کا موقع بھی ملا جن میں انہوں نے اٹھائیس رنز بنائے جس میں چوبیس رنز ان کا بہترین سکور رہا، بطور وکٹ کیپر بلے باز پاکستان کیلئے کھیلنے والے تسلیم عارف ٹیسٹ کیریئر میں پانچ اوورز میں کرا چکے ہیں جس میں انہوں نے ایک وکٹ بھی حاصل کر رکھی ہے۔تسلیم عارف نے کھیلے گئے 148 فرسٹ کلاس میچوں کی 251 اننگز میں 26 بار ناٹ آئوٹ رہتے ہوئے 33.63 کی اوسط سے 7568 رنز سکور کئے جس میں تیرہ سنچریاں اور چالیس نصف سنچریاں بھی شامل ہیں جبکہ کھیلے گئے چالیس لسٹ اے میچوں کی 39 اننگز میں تسلیم عارف نے چھ بار ناٹ آئوٹ رہتے ہوئے 25.84 کی اوسط سے 853 رنز سکور کئے جس میں ایک سو تیرہ رنز ناٹ آئوٹ ان کا بہترین سکور تھا، تسلیم عارف لسٹ اے میں ایک سنچری اور چار نصف سنچریاں بھی سکور کیں۔تسلیم عارف نے اپنا ٹیسٹ ڈیبیو 29 جنوری 1980 میں بھارت کیخلاف میچ میں کولکتہ کے میدان میں پر کیا تھا جبکہ ان کا آخری میچ فیصل آباد میں ویسٹ انڈیز کیخلاف تھا جو دسمبر آٹھ تا بارہ 1980تک کھیلا گیا،یکم مئی 1954 کو کراچی میں پیدا ہونے والے تسلیم عارف جوپھپھڑوں کی بیماری مبتلا ہوئے بالآخر 13 مار 2008 کو 53 سال کی عمر میں کراچی میں ہی انتقال کر گئے۔تسلیم عارف دلچسپ شخصیت کے مالک تھے۔ پاکستانی ٹیم کے ڈریسنگ روم میں ان کے گانے ساتھی کھلاڑیوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کا سبب بنتے تھے۔ ان کے ہم عصر ہارون رشید اور جاوید میانداد ان کے دلچسپ واقعات اکثر محفلوں میں سناتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ تسلیم عارف ایک ہنس مکھ زندہ دل شخص تھے۔ کچھ عرصہ وہ تبلیغی سرگرمیوں میں بھی مصروف رہے۔کرکٹ کھلاڑی کی حیثیث سے میدان چھوڑنے کے باوجود کرکٹ سے ان کا تعلق آخر وقت تک برقرار رہا۔ انہوں نے مستقل کمنٹری کو اپنالیا۔ اس کے علاوہ ڈومیسٹک کرکٹ میں وہ میچ ریفری کی حیثیت سے ذمہ داری نبھاتے نظرآئے اور جونیئر سلیکشن کمیٹی میں بھی شامل رہے۔

error: Content is protected !!