ایک ٹیسٹ کھیلو…. اور جان چھوڑو ،محمد ایوب ڈوگر…. 209واں ٹیسٹ کھلاڑی


تحریر : خالد نیازی
ایک زمانہ تھا جب پاکستان ٹیم میں زیادہ تر کھلاڑی لاھور اور کراچی سے آتے تھے…. پھر قدرتی ٹیلنٹ کی وجہ سے چھوٹے شہروں اور قصبوں نے بھی پاکستان کرکٹ کو عروج تک پہنچانے میں اپنا حصہ خوب ڈالا…… خانقاہ ڈوگراں سے تعلق رکھنے ایوب ڈوگر کا تعارف آپ سے کرواتے ھیں
دائیں ہاتھ کے بلے باز ایوب نے اپنی ابتدائی کرکٹ شیخوپورہ میں کھیلی…. جلد ھی اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر سیالکوٹ ریجن کی ٹیم میں شامل ھو گیا…. بہت سیدھا سادا سا لڑکا …..لیکن جب کریز پر آتا تو کھیلتے ھوۓ بہت خوبصورت لگتا….. غالباً 2003 میں جناح اسٹیڈیم سیالکوٹ میں قائد اعظم ٹرافی کے میچ میں جو اسکا پہلا یا دوسرا میچ تھا وہ 49 رنز پر آؤٹ ھوگیا… اس کی سادگی دیکھنے کہ وہ آفیشل سکورر عبدالحمید پوپا مرحوم ( جو بہت شرارتی ھوتے تھے) کے پاس گیا اورکہا کہ میرا ایک رن بڑھا کر 50 مکمل کر دیں…. پوپا کو بھی شرارت سوجھی انہوں نے اسکو کہا کہ تم میچ ریفری کے پاس چلے جاؤ اگر وہ کہہ دیں تو میں تمھارا یہ کام کردوں گا….اسکو شاید میچ ریفری کے اختیارات کا بھی علم نہیں تھا لہزا وہ اپنا مطالبہ لے کر سیدھا ریفری کے پاس پہنچ گیا…. اسکی خوش قسمتی تھی کہ میں اس میچ کا ریفری تھا میں اس کی سادہ لوحی اور سکورر کی شرارت سمجھ گیا…. میں نے اس کو پیار سے سمجھایا کہ اتنی بڑی کرکٹ میں ایسا نہیں ھوتا…. اور اگر کوئی اور ریفری ھوتا تو تم کسی اور مشکل میں پھنس سکتے تھے…… بحرحال یہ تو اس کے کیرئیر کے ابتدائی دنوں کا واقعہ تھا لیکن بعد میں اس نے سیالکوٹ ریجن کے لئے رنزوں کے انبار لگا دیئے . فرسٹ کلاس کے لگاتار تین سیزنز میں ھزار سے اوپر رنز بنائے….. لیکن سلیکٹرز انہیں نظر انداز کرتے رھے…. 4 سیزنز میں 5 ھزار سے زیادہ رنز, 43 کی اوسط اور 18 سنچریاں بھی انہیں قومی ٹیم میں نہ لا سکیں ….. 2011-12 کے سیزن میں ایک دفعہ پھر ڈوگر نے ھزار سے زیادہ سکور بنا ڈالے تو اس دفعہ اسے اپنی محنت کا پھل مل گیا…. اور اس کو سری لنکا جانے والی پاکستانی ٹیم میں شامل کر لیا گیا…. پہلے 2 ٹیسٹ میچوں میں جگہ نہ مل سکی…. بہت امکان تھا کہ بغیر کچھ کھیلے گھر واپسی ھوگی…. لیکن یہاں خوش قسمتی نے ساتھ دیا… تیسرے ٹیسٹ سے پہلے کپتان مصباح الحق پر "سلو اوور ریٹ” کی وجہ سے 1 میچ کی پابندی لگ گئی اور ان کی جگہ ایوب کو 32 سال کی عمر میں ٹیسٹ ڈیبیو کا موقع مل گیا…. اس نے آس میچ میں 25 اور 22 رنز بنائے… بدقسمتی سے دونوں اننگز میں مشکوک فیصلے کے زریعے ایل بی ڈبلیو آؤٹ دیا گیا …..اور اس سے بڑی بد قسمتی کہ اس وقت DRS سسٹم بھی نہیں تھا ورنہ شاید اسے اپنی صلاحیتیں دکھانے کا مزید موقع مل جاتا؟… اس میچ کے بعد اس کو دوبارہ ٹیسٹ میں موقع نہیں دیا گیا اور وہ ان کھلاڑیوں کی فہرست میں شامل ھو گیا جو 1 ٹیسٹ میچ کا لیبل لگا کر گمنامیوں میں کھو گئے……وہ بھی کچھ عرصہ بعد کرکٹ چھوڑ کر انگلینڈ میں جا بسا….. شاید ھمارا المیہ ھے کہ ھم مسلسل پرفارمنس کرنے والے کھلاڑیوں کو مناسب وقت پر موقع نہیں دیتے جس وقت وہ بہتر انداز سے ملک کی خدمت انجام دے سکتا ھے…. لیکن ھمارے ھاں ایسا ضرور ھوتا ھے کہ مسلسل پرفارم کرنے والے کھلاڑی جب پرفارمنس کرنے سے باز نہیں آتے تو انہیں ادھیڑ عمری میں 1 ٹیسٹ کھلا کر ھمیشہ کے لئے جان چھڑا لی جاتی ھے ….

error: Content is protected !!