ڈھول سہانے اور سپورٹس کے میدان
غنی الرحمن
ایک مشہورمثل ہے کہ دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں یعنی دور سے اکثر چیزیں زیادہ بھلی اور خوبصورت لگتی ہیں، جب تک آپ کسی چیز کے قریب جاکر اسے دیکھ نہ لیں۔
مثال کے طور پر کسی بھی شہر کے مضافات سے جب آپ دور دراز پہاڑوں کو دیکھتے ہیں تو وہاں جانے اور انہیں قریب سے دیکھنے کو دل مچلتا ہے، وہاں کے سرسبز درخت زندگی کی نشانی لگتی ہے مگر جب بندہ پہاڑ پر چڑھتا ہے
تو انہیں جنگل اور جھاڑیوں کے کانٹوں سے الجھنا پڑتا ہے، پہاڑی راستے کی تھکاوٹ اسے ہلکان کرتی ہے اور نوکیلے پتھر پاؤں زخمی کرتے ہیں تب احساس ہوتا ہے کہ یہ پہاڑ اتنے بھی خوبصورت نہیں جتنا ہم اسے سمجھتے ہیں۔
یہی حال محکمہ کھیل خیبرپختونخواکا ہے،جہاں پر کھیل اور کھلاڑیوں کیلئے اب نہیں سوچاجاتا بلکہ یہ محکمہ بعض لوگوں کیلئے سونے کی چڑیاں بن گئی ہے،
کھیل اور کھلاڑیوں کے نام پرہرسال کروڑوں روپے کا فنڈزآتاہے اورختم ہوتاہے لیکن اس شعبے کوفروغ نہیں ملا،بلکہ شعبہ کھیل مزید تباہی کا شکار ہے سٹیڈیمز اور کورٹس تو بن رہے ہیں لیکن کھلاڑی دل برداشت ہوکر گیمز کوچھوڑرہے ہیں۔
اس شعبے میں راتوں رات ملازمین کو ترقیاں مل رہی ہے گاڑیاں اور دیگر مراعات مل رہی ہے لیکن کھیل کے نام غریب کھلاڑیوں کودونوں ہاتھوں سے لوٹاجارہاہے اور انٹری کارڈ کے ذریعے اس سے ماہانہ پیسے لیئے جاتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ تین ما ہ سے پشاور کے قیوم سٹیڈیم سمیت صوبے کے کسی ضلع میں کوچز فارغ کرکے گھر بھیج دیئے ہیں،
جو بھی آفیسر محکمہ کھیل میں بطور ڈائریکٹر جنرل آتے ہیں تو کئی مہینوں تک وہ اس ادارے میں اپنی مرضی کی پایسی لاگو کرتے ہیں،لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ وہ اس کھیل میں سیاست کے بجائے کام کی ضرور ت ہوتی ہے،
اس ادارے پر اپنی باشاہت قائم کرنے والے آفسر شاہی کو یہ بات اچھی طرح جانناچاہیئے کہ نئی نسل میں اندر کی صلاحیتوں کو نکھار کر سامنے لانے کیلئے کھیلوں کی ترقی کیلئے خلوص نیت سے کام کرناہوگا،
یہ نئی نسل کی مستقبل کا سوال ہے،آج اگر کوئی یہ کہتاہے کہ پاکستان کا دنیائے کھیل میں ایک نام تھا،اس وقت کے نوجوان محنت کرتے تھے اور آ ج کے کھلاڑی محنت کرنے ی زحمت نہیں کرتے،
آجکل کے کھلاڑیوں میں بھی محنت کا جذبہ موجودہے یکن انہیں پہلے کی طرح ارگنائزر زاور سپورٹ کرنے والوں کی کمی ہے، ایک بات یہ بھی ہے کہ اس دور میں سکولوں،کالج اور یونیورسٹیوں کی سطح پر کھیلوں کو ایک نمایاں مقام حاصل تھا،درحقیقت کھیل اور تعلیم ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں،
کیونکہ جسمانی تعلیم اور مختلف قسم کے کھیل طلبہ کی ذہنی و جسمانی نشوونما کے لئے بے حد ضروری ہیں،بچپن میں فطری طور پر بچے کھیل کود کے شوقین ہوتے ہیں،
جس سے ان کے اعضائے جسمانی کی ورزش ہوتی رہتی ہے جو ان کی بہتر نشوونما کیلئے بہتر ہے اوران کی کردار سازی اور نفسیاتی تربیت میں بھی مدد ملتی ہے۔زمانہ قدیم سے ہی مختلف قسم کے کھیل اور صحت مندانہ سرگرمیاں سکولز میں کروائی جاتی رہی ہیں تاکہ بچوں کو صحت مند بنا کر مطلوبہ اہداف کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔
تحقیق سے یہ بات واضح ہے کہ صحت مند بچے ہی تعلیمی میدان میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسلئے سکولز میں جسمانی تعلیم اور کھیلوں پر زور دینے کی ضرورت ہے، طالب علم چاہے وہ کسی بھی جماعت میں ہو جب تک جسمانی طور پر فٹ نہیں ہوگا اس وقت تک وہ بہتر تعلیم حاصل نہیں کرسکتا۔
جسم کو فٹ رکھنے کیلئے ورزش بے حد ضروری ہے اور جسمانی ورزش کا تعلق بالواسطہ یابلا واسطہ کھیلوں سے ہی ہوتا ہے۔ ف یہ قول مشہور ہے کہ”جس ملک میں کھیل کے میدان آباد ہوں تو انکے ہسپتال ویران ہوں گے۔
یہی وجہ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں اکیڈمک ایجوکیشن کی طرح فزیکل ایجوکیشن کے کلیدی کردار کو بھی تسلیم کیاجاتاہے
،جسمانی تعلیم نوجوانوں میں نظم ونسق، احساس ذمہ داری اور قائدانہ صلاحیتوں کے لئے راہ ہموار کرتی ہے۔ماضی کے برعکس ہمارے یہاں صورتحال تبدیل ہورہی ہے ترقی یافتہ ملکوں کیاسکولوں میں فزیکل ایجوکیشن کے فروغ کیلئے اسکولوں میں ہی مختلف گیمز کا انعقاد کروایا جاتا ہے
تاکہ طلبہ کی کردار سازی کے ساتھ ساتھ ذہنی و جسمانی نشوونما ممکن ہو۔ ان ممالک میں کھیل کوبچوں کی جسمانی نشوونما کیساتھ ساتھ بچوں کی ذہنی اور عملی قابلیت میں اضافے کیلئے ایک تعلیمی آلہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ چھوٹے بچوں کی توجہ پڑھائی پر مرکوزرکھنے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں کھیل کھیل میں پڑھایا اور سکھایا جائے۔
جب تک طلبہ پڑھائی کو انجوائے نہیں کریں گے سیکھ نہیں پائیں گے،اجتماعی کھیلوں کے ذریعے بچے اپنے ہم ساتھی کھلاڑیوں کیساتھ تعاون و ہمدردی، قاعدوں، ضابطوں کی پابندی، مقابلہ ومسابقت میں اعتدال، اطاعت وقیادت اور دھاندلیوں کامقابلہ اور اپنی باری کاانتظار کرنے کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔
ہم جولیوں کاپاس ولحاظ کرنا، ذاتی دلچسپیوں کو اجتماعی مفاد پر قربان کرنا بھی وہ منظم کھیلوں کے ذریعے سیکھتے ہیں،تعلیمی اداروں میں کھیلوں کے کی سرگرمیوں کا بنیادی مقصد سکولوں کے اندر ایسادوستانہ ماحول پروان چڑھانا ہے تاکہ بچے سکولوں میں خوشی خوشی آسکیں اور کھیل کود کے ساتھ پڑھائی کو بھی جاری رکھ سکیں،
لیکن افسوس سے کہناپڑتاہے کہ کھیلوں کا شعبہ جس طرح بظاہر نظر آرہاہے وہ ایسانہیں،بلکہ یہاں کے لوگ جس منافقت اور دغلاپن کی پالیسی پر عمل پہراہے وہ کہیں پر بھی نہیں۔ آجکل ہمارے ہمارے تعلیمی اداروں میں کھیلوں کی وہ اہمیت ختم کردی ہے
جو انہیں حاصل ہے،آج بھی وقت ہے کہ اگر صوبے میں کھیلوں کی ان ایسوسی ایشنز کے عہدیداروں کو ہٹانا چاہئے جن ایسوسی ایشنز کی مختلف اضلاع میں کوئی ڈھانچہ موجود نہیں،
جوکہ ایک قبضہ گروپ کی شکل میں سالہاسال قابض ہیں،ان تما م امور کا از سرے نو جائزہ لینا چاہئے اور ساتھ ہی صوبے کے تمام اضلاع میں مختلف کھیلوں کی کلبوں کے قیام کے بعد وہاں کے ضلعی اور ڈویژن کی سطح پر ایسوسی ایشنز قائم کرنے ی ضرورت ہے اور اس کے بعد ہی کھیلوں کی صوبائی تنظیموں کی کابینہ عمل میں لانا چاہئے،
اسکے ساتھ ہی تعلیمی اداروں میں کھیلوں کو لازمی قراردینی چاہئے اورمحکمہ کھیل کومحکمہ تعلیم میں ضم کردینا چاہیئے۔تب ہی جاکر ہم دنیامیں حکمرانی کے قابل ہوسکیں گے۔