لائبہ ناصر ، ہمت اور حوصلے کی خوبصورت مثال

 

 

 

لائبہ ناصر ، ہمت اور حوصلے کی خوبصورت مثال

لوگوں نے مشورہ دیا کہ کرکٹ چھوڑو اور ویٹ لفٹنگ میں آجاؤ

کراچی،30 مئی 2023

 

خواتین کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی سترہ سالہ لائبہ ناصر کے والدین اگر دوسروں کی باتیں سن کر دلبرداشتہ ہوجاتے تو ان کی بیٹی کبھی بھی کرکٹر نہیں بن پاتی لیکن ان کی حوصلہ افزائی اور خود لائبہ ناصر کی اپنی محنت نے انہیں انڈر 19 ورلڈ کپ میں پاکستان کی نمائندگی کا موقع فراہم کردیا۔

لائبہ ناصر کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ ان دنوں پاکستان کپ ویمنز ایک روزہ ٹورنامنٹ میں ڈائنامائٹس کی نمائندگی کررہی ہیں۔

لائبہ ناصر کو کرکٹ کا شوق بچپن سے تھا ۔ بارہ سال کی عمر سے کرکٹ کھیلنی شروع کردی تھی۔ وہ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں ″جب میں گلی میں کرکٹ کھیلتی تو گھر کے سامنے رہنے والی خاتون میرے کھیلنے پر اعتراض کیا کرتی تھیں اس کے علاوہ آنے جانے والے لوگ بھی یہ کہتے تھے کہ یہ لڑکی لڑکوں کے ساتھ کیوں کھیل رہی ہے اور وہ میرے والدین سے آکر کہا کرتے تھے اسے باہر مت بھیجا کریں جس کے بعد میرے والد نے مجھ سے کہا کہ گراؤنڈ میں جاکر کھیلو”۔

لائبہ ناصر بتاتی ہیں ″میرے والد مجھےصبح کے وقت گراؤنڈ لے جایا کرتے تھے اور پریکٹس کراتے تھے لیکن اس سے ان کے کام میں رکاوٹ ہوتی تھی لہذا انہوں نے مجھے ایک کلب میں داخل کرادیا”۔

لائبہ ناصر کہتی ہیں″ اگر میرے والد مجھے سپورٹ نہ کرتے تو میں کرکٹر نہ بن پاتی آج میں جس مقام پر بھی ہوں یہ میرے والدین کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے۔ میرے والد صدر میں ٹیبل کور اور سوئٹرز وغیرہ فروِخت کرتے ہیں۔ ہم چار بہنیں اور ایک بھائی ہے۔بڑی بہن ایتھلیٹ ہیں۔ میں کرکٹ کھیل رہی ہوں ۔ ایک بہن جمناسٹک کررہی ہیں جبکہ بھائی فٹبال کھیلتے ہیں ″۔

 

لائبہ ناصر پنجاب کالج میں اسکالرشپ میں ہیں وہ کہتی ہیں کہ انہیں بچپن میں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ انہیں پائلٹ بننا ہے بلکہ وہ شروع سے ہی کرکٹر بننا چاہتی تھیں۔انہیں وہ دن بھی یاد ہے کہ گرمی ہو یا سردی وہ گھر سے نکل کر پریکٹس کے لیے گراؤنڈ جایا کرتی تھی اور سوچتی تھیں کہ گھر سے گراؤنڈ تک کتنا فاصلہ طے کرنا ہے لیکن جب گھر سے نکل جاتی تو پھر یہ راستہ ختم ہو ہی جاتا تھا۔

لائبہ ناصر کہتی ہیں″ جب میں نے کرکٹ شروع کی تو ثنا آپی ( ثنا میر ) کی بہت تعریف سنی تھی اور ہر کوئی یہی کہتا تھا کہ تم بھی ثنا میر جیسی بننے کی کوشش کرو اور جب میں نے بولنگ شروع کی تو ندا ڈار کا بولنگ اسٹائل مجھے بہت اچھا لگا۔ میں ان کے اسٹائل کی کاپی کرنے کی کوشش کرتی ہوں لیکن وہ نہیں ہوپاتا″۔

 

لائبہ ناصرکہتی ہیں ″پہلے میں صدر لاہور میں رہتی تھی جہاں سے نیشنل کرکٹ اکیڈمی تک جانے میں مجھے ڈیڑھ گھنٹے لگتے تھے لیکن جب ہم وہاں سے صدر جوڑے پل کے علاقے میں منتقل ہوئے تو وہاں سے نیشنل کرکٹ اکیڈمی تک پہنچنے میں مجھے دو گھنٹے لگ گئے کیونکہ دو آٹو تبدیل کرنا اور پھر کنال سے اکیڈمی تک کٹ بیگ کے ساتھ پیدل جانا″۔

 

لائبہ ناصر کو وہ وقت اچھی طرح یاد ہے کہ چھوٹے قد اور وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے کئی لوگوں نے مجھے یہ مشورہ بھی دے دیا تھا کہ کرکٹ چھوڑ کر ویٹ لفٹنگ میں آجاؤ لیکن میں نے سوچ رکھا تھا کہ کرکٹر ہی بننا ہے۔والدین بھی یہی کہتے تھے کہ دوسروں کی باتوں پر دھیان مت دو ۔

 

لائبہ ناصر کے لیے وہ لمحہ نہ بھولنے والا تھا جب ان کا نام انڈر19 ٹیم میں آیا۔گھروالے بہت خوش تھے اور والد انہیں لے کر اپنے دوستوں سے ملانے کے لیے لے گئے اور انہیں بتایا کہ میری بیٹی کا نام پاکستان انڈر19 ٹیم میں آگیا ہے ۔جن لوگوں نے مجھے کہا تھا کہ میں کرکٹ نہیں کھیل سکتی لیکن پھر وہ بھی مجھے مبارک باد دے رہے تھے۔

 

لائبہ ناصر انڈر 19 ورلڈ کپ کھیل کر جب واپس آئی تھیں تو سب گھر والوں کے لیے تحفے بھی لائی تھیں لیکن وہ اپنی خالہ کو نہیں بھولی تھیں جنہوں نے مشکل وقت میں ان کا بہت ساتھ دیا تھا۔

 

لائبہ ناصر کہتی ہیں ″ جو لڑکیاں کرکٹ کا شوق رکھتی ہیں وہ ضرور کھیلیں اور اگر ان کے والدین ان کی سپورٹ کرتے ہیں تو وہ ضرور آگے بڑھیں گی۔میرے ساتھ ایک لڑکی کھیلا کرتی تھی لیکن چونکہ اس کے والدین نے اسے سپورٹ نہیں کیا لہذا وہ کھیل چھوڑگئی″۔

 

لائبہ ناصر کے والد کو اس بات کا احساس ہے کہ ان کی بیٹی کو گراؤنڈ آنے جانے میں بہت وقت لگتا ہے لہذا انہوں نے لائبہ سے کہا ہے کہ وہ ایک بائیک لے لیں تاکہ وہ آسانی سے گراؤنڈ آجایا کریں۔

 

 

 

 

error: Content is protected !!