خیبرپختونخوا میں کھیلوں کی پالیسی پر کوئی عملدرآمد نہیں.

 

خیبرپختونخوا میں کھیلوں کی پالیسی پر کوئی عملدرآمد نہیں ، کلب سطح کی رجسٹریشن کو ڈی ایس او پوچھتے تک نہیں

مسر ت اللہ جان

صوبائی حکومت کی جانب سے 2018 کی اسپورٹس پالیسی میں باقاعدہ لکھا گیا ہے کہ نرسری سطح پر کھیلوں کو فروغ دیا جائیگا اسی طرح ہرکھیلوں کے ایسوسی ایشن میں پانچ کلب لازمی ہونگے جس کی رجسٹریشن ، مانیٹرنگ ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر کرینگے.

اور یہی فارمولہ کسی بھی ایسوسی ایشن کو رجسٹر کرنے کے لیے لازم ہے. ایک شرط یہ ہے کہ کم از کم پانچ فعال کلب ہوں جو متعلقہ کھیلوں کو فروغ دینے کے لیے وقف ہوں۔ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر کو ان کلبوں کی نگرانی، رجسٹریشن اور انتخابات کرانے کا اختیار حاصل ہے۔ تاہم، ان دفعات کے باوجود، صوبہ خیبر پختونخوا چند رجسٹرڈ کلبوں پر فخر کرتا ہے، جو بنیادی طور پر مٹھی بھر کھیلوں پر مرکوز ہیں۔
ے
صوبے میں کم و بیش تقریباً پینتیس سے زائد انجمنیں رجسٹرڈ ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، لیکن ان کی رجسٹریشن کی اصل حیثیت ابھی تک غیر واضح ہے۔ 1861 کے قانون کے مطابق کوئی بھی انجمن قائم کر سکتا ہے لیکن اسع مقصد کے لیے اسپورٹس کلب کی موجودگی لازمی ہے۔لیکن صوبے میں کہیں پر بھی کلب لیول کی کوئی رجسٹریشن نہیں نہ ہی سوائے چند گیمز کے کلب لیول کہیں پر ہے.ےپی ٹی آئی حکومت نے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک پالیسی بنائی، لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ دارالحکومت پشاور سمیت صوبے بھر کے ضلعی اسپورٹس افسران کے پاس کلب کے مقامات، ان کی سطحوں اور ان کے سرپرستوں کے اعداد و شمار کا فقدان ہے۔

 

سال 2018 میں بنائے جانیوالے اس پالیسی کے باوجود وقت گزرنے کے باوجود، ان افسران نے کبھی کسی کلب کی رجسٹریشن یا معائنہ نہیں کیا، اور ڈی ایس او پشاور کو رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ (آر ٹی آئی) کے تحت معلومات کی درخواستیں جواب نہیں دی گئیں کہ انہوں نے اب تک پشاور کی سطح پر کتنے کلب کی رجسٹریشن چیک کی ہے ان کے انتخابات کی نگرانی کی ہے.

 

قانون کے مطابق، ایسوسی ایشنز میں کم از کم سات اور زیادہ سے زیادہ بیس ممبران ہونے چاہئیں اور متعلقہ حکومتی اداروں کے ساتھ رجسٹر ہونا ضروری ہے۔ یہ ایسوسی ایشنز سالانہ 10 لاکھ روپے تک کی گرانٹ کے لیے اہل ہیں، لیکن ان میں سے زیادہ تر صرف کاغذ پر موجود ہیں، جس سے یہ فنڈز ضائع ہو رہے ہیں۔اسی طرح کھیلوں کے مقابلوں کی کوریج کا دعویٰ کرنے والی صحافتی تنظیمیں بھی بغیر رجسٹریشن کے کام کرتی ہیں۔ یہ ادارے جوابدہ ہوئے بغیر سرکاری خزانے سے خاطر خواہ فنڈز نکالتے رہتے ہیں۔

 

 

error: Content is protected !!