خیبر پختونخواہ سپورٹس پالیسی ، ڈائریکٹریٹ خود عملدرآمد کرنے سے گریزاں

خیبر پختونخواہ سپورٹس پالیسی ، ڈائریکٹریٹ خود عملدرآمد کرنے سے گریزاں

مسرت اللہ جان

اٹھا رھویں ترمیم کے بعد مختلف ڈیپارٹمنٹ سمیت کھیلوں کی وزارت بھی صوبائی حکومت کے زیر انتظام آگئی ہیں اور صوبائی سبجیکٹ ہونے کے بعد سال 2018 میں خیبر پختونخواہ حکومت نے ایک سپورٹس

پالیسی بھی بنا ڈالی لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ سال کم و بیش چار سال قبل بننے والے اس پالیسی پر سپورٹس کی اپنی وزارت ابھی تک عملدرآمد نہیں ہی کررہی ہیں اور نہ ہی اس کیلئے کوشاں ہے اسی

پالیسی کے تحت صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جو تنظیمیں کھیلوں کے فروغ کیلئے کوشاں ہوگی اس کیلئے مراعات بھی دینگی اسی طرح اگر کسی کی پرفارمنس اپنے کھیل میں بہتر ہوگی تو اسکی کارکردگی کی بناءپر انہیں مراعات بھی دئیے جائیں گے.

لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ سال 2018 سے لیکر 2023 تک صوبائی حکومت کی جانب سے اس پالیسی پر کوئی عملدرآمد نہیں ہورہا ، اسی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے انڈر 21 میں کھلاڑیوں کیلئے مقابلوں کا اعلان

کیا اور یہ بھی اعلان کیا گیا کہ جو بھی بہترین اور ٹاپ پوزیشن لے گا اسے ماہانہ وظیفہ دیا جائیگا لیکن گذشتہ چھ ماہ سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے اس معاملے پر مکمل طور پر خاموشی اختیار کرلی ہے اور

بیشتر اوقات یہی رونا رویا جاتا ہے کہ فنڈز نہیں ہے جس کے باعث نہ صرف صوبائی سپورٹس پالیسی کی خلاف ورزی ہورہی ہے بلکہ اس کے باعث کھلاڑیوں کا کھیل اور کھیل کے میدانوں سے اعتماد اٹھ رہا ہے.

دوسری طرف صورتحال یہی ہے کہ جن کھیلوں کے کھلاڑیوں نے قومی اور بین الاقوامی فورم پر پاکستان کا نام اوراپنے صوبے کا نام روشن کیا ان کیلئے کوئی امداد نہیں ، ان کیلئے مراعات نہیں ، گذشتہ کئی سالوں

سے چند کھیل ایسے ہیں جن کے کھلاڑیوں نے نمایاں پوزیشن حاصل کی لیکن ان کیلئے فنڈز نہیں ، باڈی بلڈنگ سے لیکر آرچری ، اتھلیٹکس ، ہاکی ، فٹ بال سمیت متعدد ایسے کھلاڑی موجود ہیں جنہوں نے گذشتہ کئی سالوں سے مستقل اپنی پوزیشن بین الاقوامی دنیا میں بنا لی ہیں لیکن انہیں نہ تو مراعات

دی جارہی ہیں اور نہ ہی ان کے اور کوئی مراعات ہیں ایسے میں خاک کھلاڑی کھیلوں کے میدان کی طرف آئیں گے.

اسی طرح خیبر پختونخواہ کی سپورٹس پالیسی 2018 کے مطابق یہ ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اپنے ضلع میں نہ صرف کلب لیول کے کھیلوں کوفروغ کیلئے کام کرے گی بلکہ اس کی

مانیٹرنگ کیساتھ ساتھ متعلقہ کمیونٹی سپورٹس سرگرمیوں کیلئے کیٹگری بھی متعارف کروائے گی لیکن یہاں بھی افسوسناک حد تک صورتحال بتانے کے قابل نہیں آج تک کسی بھی ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز

جو کہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام ہوتے ہیں نے کلب لیول کے کھیلوں کے فروغ کیلئے کام ہی نہیں کیا ، نہ ہی کلبوں کی رجسٹریشن چیک کی ہے کہ ان کے پاس کتنے کھلاڑی موجود ہیں اسی

طرح کیا متعلقہ کلب کے لوگو ہیں ، کیا ان کے کھلاڑیوں کے کلب لیول کے آئی ڈی کارڈ بنے ہوئے ہیں ، کیا متعلقہ کلب کی فیس بک پر کوئی پیج موجود ہیں اور اگر موجود ہیں تو کیا پراپر طریقے سے اپ ڈیٹ بھی

ہورہی ہیں یا نہیں .اسی طرح کلب کے سطح پر تربیت حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کے پروفائل کس کے پاس ہیںکبھی کسی ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر نے چیک کرنے کی کوشش کی ہے یا نہیں.کتنے کلب پشاور سمیت دیگر اضلاع میں ہیں اور ان کے کلب کے دفاتر کہاں پر ہیں کیا ان کلب جو ڈسٹرکٹ کی سطح پر ہوتے ہیںاپنے مقابلے منعقد کروائے ہیں . اگر کوئی کیلینڈر ہے تو بھی کہاں پر ہے .

 

دوسری طرف صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے بھی اس معاملے پر مکمل طور پر خاموشی اختیار رکھی ہیں کہ اپنی ہی حکومت کی سپورٹس پالیسی کے تحت جس ایسوسی ایشن کا وہ الحاق کررہی ہیں کیا ان کے پاس رجسٹرڈ کلب اور کھلاڑی ہے بھی نہیں ، یہاں تو دو دو افراد پر بنی ایسوسی ایشنز ہیں ، اسی

طرح باپ بیٹے کی ایسوسی ایشن بھی چل رہی ہیں ان کی کارکردگی بس اتنی ہے کہ اگر کہیں باہر ٹور کا پروگرام بن جائے تو پہلے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ خود جا کر وزٹ کریں اور اگر ایسا نہیں تو پھر بیشتر کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اگر کھیل کے میدان میں کوئی ایسا بند ہ ہو جو باہر جانے کا خواہشمند ہوں

تو اسے باہر بھجوا کر کچھ نہ کچھ لیا جائے ، متعدد ایسے کھیلوں کی ایسوسی ایشنز موجود ہیں جو انسانی سمگلنگ میں ملوث ہیں ، اور اس عمل میں نہ صرف ایسوسی ایشن کے کرتا دھرتا ملوث ہیں بلکہ ان کے ساتھ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کچھ مخصوص لوگ بھی شامل ہیں جن کی آشیرباد سے کھلاڑیوں کے نام پر غیر متعلقہ افراد کو باہر بھجوا کر کام نکالا جاتا ہے .

 

خیبر پختونخواہ کی بنائی گئی سپورٹس پالیسی کے مطابق صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کیساتھ ایسوسی ایشن الحاق کرسکتی ہیں اور وہ بھی جن کے پاس متعلقہ کھیلوں کے کم از کم پانچ کلب ہوں ، تبھی وہ ایسوسی ایشن کہلائی جاسکتی ہیں ابھی تک نہ تو صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نہ ہی

ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کتنے ایسوسی ایشن کے پاس کلب ہیں ، حیران کن طو ر پر صوبائی سپورٹس پالیسی میں یہ لکھا ہوا ہے کہ کھیلوں کی ایسوسی ایشن کا الحاق صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے پاس ہوگا لیکن ساتھ میں یہ بھی لکھا ہے کہ کلب اپنی رجسٹریشن

ایسوسی ایشن کیساتھ کروائیں گے لیکن یہ کونسے قانون کے تحت ہوگا ا س بارے میں معلومات کسی کے پاس نہیں ، بفرض محال اگر کوئی کلب اپنی رجسٹریشن یا الحاق ایسوسی ایشن کیساتھ رکھتی ہیں تو ایسوسی ایشن کی رجسٹریشن کس کے پاس ہوگی اس بارے میں صوبائی سپورٹس پالیسی مکمل

طور پر خاموش ہیں . حالانکہ ایسوسی ایشن کی رجسٹریشن سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ یا انڈسٹریز ڈیپارٹمنٹ کیساتھ ہوگی تاکہ انہیں گرانٹ اینڈ ایڈ مل سکے لیکن نہ تو کلب سطح کے کھیلوں پر کوئی توجہ دی جارہی ہیں اور نہ ہی ایسوسی ایشنز کی کارکردگی پورے صوبے کی بنیاد پر دیکھی جارہی ہیں ، کیا

ابھی تک کسی نے چیک کیا ہے کہ ڈسٹرکٹ کی سطح پر کام کرنے والے کتنے ایسوسی ایشن کے اپنے دفاتر ہیں ، کتنے صوبائی ایسوسی ایشن کے پاس اپنے دفاتر ہیں ، اسی طرح گذشتہ دس سالوں میں کتنے نئے لوگ کھیلوں کے شعبے میں نئے آئے ، یا صرف باپ سے بیٹے اور رشتہ داروں ، دوستیوں یا پارٹی وابستگی تک ایسوسی ایشن کے عہدے مختص ہیں. (جاری ہے)

 

error: Content is protected !!