ورلڈ کپ ;ٹیم ورک , ٹیم اسپرٹ سے عاری, ناقص کپتانی پاکستانی ٹیم کو لے ڈوبی
……………اصغرعلی مبارک………………
ٹیم ورک , ٹیم اسپرٹ سے عاری,ناقص کپتانی ; پاکستانی ٹیم سے ورلڈ کپ میں امید خام خیالی ہے. پاکستان کی افغانستان سے شکست کوئی اپ سیٹ نہیں بلکہ پاکستان کی ممکنہ شکست کی وجوہات کی پیشنگوئی
راقم الحروف اصغرعلی مبارک سینئر تجزیہ کار نے” آج ٹی وی پر لائیو پروگرام روبرو ” میں اینکر شوکت پراچہ کے ساتھ پاکستان بمقابلہ انڈیا میچ میں شکست کے بعد کی تھی اور اب وہی بات وسیم اکرم , مصباح الحق ,شعیب اختر, شعیب ملک ,معین خان اور دیگر ماہرین کرکٹ کررہےہیں
آپ آج ٹی وی پر لائیو پروگرام روبرو میں اینکر شوکت پراچہ کے ساتھ یوٹیوب پر موجود کلپ https://www.youtube.com/watch?v=nAiYKsF5qHIضرور دیکھیں اور اندازہ لگائیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدیدارکس قدر بے حس ہو چکے ہیں جنکو نہ تو پاکستان کی عزت کا پاس ھے
اور نہ انہیں قوم کے جذبات و احساسات کا خیال ہے بابر اعظم اور دیگر کھلاڑیوں کی لڑائیوں سے پاکستان کرکٹ بدنام اور رسوا ہو چکی ہے بابر اعظم پاکستانی ٹیم کے بجائے اپنے لئے کھیلتے ہیں اور اس کا اندازہ افغانستان کے خلاف میچ میں بیٹنگ ہے
بابر اعظم شروع میں کچھ مناسب رفتار سے کھیل رہے تھے لیکن ایک بار پھر تیس کے اسکور تک پہنچ کر اسکور بنانے کی رفتار کم ہوتی گئی اور تقریباً سو کے اسٹرائیک ریٹ سے آغاز کرنے والے بابر اعظم کی نصف سنچری 69 گیندوں پر مکمل ہوئی۔ بابر اعظم کی کپتانی پر تنقید بہت عرصے سے جاری ہے لیکن لگتا ہے کہ وقت کے ساتھ بابر اعظم کے سیکھنے کا سفر الٹا چل پڑا ہے۔
ورلڈکپ میں ناقص بیٹنگ کرنیوالے کپتانوں میں بابراعظم کا تیسرا نمبرہے ورلڈکپ میں قومی ٹیم کے کپتان بابراعظم کی مسلسل ناکامیوں سلسلہ دراز ہونے لگا۔ میگا ایونٹ میں قومی ٹیم کے کپتان بابراعظم کی قیادت، بلےبازی اور فیصلوں پر سوالات اُٹھنے لگے ہیں،
ابتدائی 4 میچز میں بطور کپتان ورلڈکپ بابراعظم کیلئے بلکل اچھا ثابت نہ ہوا۔ پاکستانی کپتان ٹورنامنٹ میں چار میچز کے دوران محض 83 رنز بناسکے تھے جس میں روایتی حریف بھارت کیخلاف 50 جبکہ آسٹریلیا کے خلاف 18، سری لنکا مقابل 10 اور نیدرلینڈز جیسی کمزور ٹیم کے سامنے صرف 5 رنز بنے تھے۔
ورلڈکپ میں قومی ٹیم کے کپتان بابراعظم بطور نمبر ایک بیٹر شریک ہوئے تھے تاہم انکی ناقص بیٹنگ پرفارمنس سے انکی پوزیشن خطرے میں پڑگئی ہے۔
دوسری جانب ورلڈکپ میں کپتانوں کی بدترین بیٹنگ اوسط بابراعظم 20.75 کے ساتھ تیسرے نمبر پر موجود ہیں، پہلے نمبر پر بنگلادیش کے شکیب الحسن 18.33، جنوبی افریقا کے ٹمبا بوؤما 19.66 اور آسٹریلیا کے پیٹ کمنز 21.50 کے ساتھ موجود ہیں
کچھ ایسی چیزیں جو باہر بیٹھے عام تماشائی بھی سمجھ رہے ہیں وہ چیزیں آٹھ سال کے بین الاقوامی تجربے کے باوجود بابر اعظم کی سمجھ میں نہیں آرہی ہیں۔
زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ مشکل وقت میں کیے گئے عجیب فیصلوں میں محمد رضوان اور شاداب خان بھی برابرکےشریک نظر آتے ہیں۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ پاکستان ٹیم کی ایشیا کپ میچوں ناقص کارکردگی کی وجہ سے کسی کھلاڑی کا احتساب نہ ہوا تھا
جس انداز کا پاکستان نے اب تک کھیل پیش کیا ہے اس میں پلاننگ بالکل نظر نہیں آئی,
قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ ایشیا کپ کا تیسرا میچ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوا تھا جو بارش کی وجہ سے بے نتیجہ رہا تھا۔ لیکن اس میچ کی پہلی اننگ مکمل ہو چکی تھی
جس میں بھارتی ٹیم نے بیٹنگ کی اور 266 رنز بنا ڈالے۔ پاکستانی فاسٹ باؤلرز اس اننگ میں چھائے ہوئے تھے، ناقص فیلڈنگ، عام سی کپتانی اور ناکارہ اسپن باؤلنگ کے باوجود شاہین، نسیم اور حارث نے دس وکٹیں حاصل کیں اور بھارت کو ایک مناسب اسکور تک محدود کر دیا تھا۔ ہر طرف پاکستانی فاسٹ باؤلرز کے چرچے تھے،
صرف پاکستانی کرکٹ شائقین ہی نہیں کرکٹ ماہرین بھی ان تینوں پر مشتمل اٹیک کو دنیا کا بہترین اٹیک قرار دے رہے تھے۔چند دن گزرے اور اسی بھارت کے خلاف پاکستانی ٹیم کا میچ تھا۔
اس میچ میں پاکستانی ٹیم کو ایک بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ فاسٹ باؤلرز کی کافی زیادہ پٹائی ہوئی اور ساتھ ہی حارث رؤف اور نسیم شاہ ان فٹ ہو گئے۔ حارث رؤف تو واپس آگئے لیکن نسیم شاہ ورلڈکپ اسکواڈ سے ہی باہر ہو گئے۔
پاکستانی ٹیم بھارت کے خلاف اس میچ کے بعد ایشیا کپ میں سری لنکا، دونوں ورلڈکپ وارم اپ میچز اور اب ابتدائی پانچ میں سے تین میچز میں شکست کا شکار ہو چکی ہے۔
شاہین آفریدی جو اپنے پہلے اسپیل میں مخالف ٹیموں کے لیے دہشت کی علامت تھے، اب ان کی پھینکی گئی گیندیں ہر جانب باؤنڈری پار جاتی نظر آرہی ہیں۔حارث رؤف جو وکٹیں اڑاتےتھے، اب ان کی تیز رفتار گیندیں اڑتی ہوئی میدان سے باہر جاتی دکھائی دے رہی ہیں۔
آسٹریلیا کے خلاف وارنر نے گیند ہوا میں کھڑی بھی کی تو اسامہ میر اس کے نیچے آنے کے باوجود اسے گرفت میں لینے سے قاصر رہے اور پھر وارنر نے مارش کی ساتھ مل کر تمام پاکستانی باؤلرز کی خوب دھلائی کی لیکن افغانستان کے خلاف تو باؤلرز وکٹ حاصل کرنے کے قریب آتے بھی دکھائی نہ دئیے۔
اندازہ تو تھا کہ پاکستانی فیلڈنگ کافی پریشان کرے گی، یہ ڈر بھی تھا کہ پاکستانی اسپنرز بری طرح پٹیں گے، یہ خدشہ بھی تھا کہ پاکستانی ٹیم کی بیٹنگ اپروچ باقی تمام ٹیموں کی نسبت سالوں پرانی ہوگی مگر شاید کسی کو یہ خیال تک نہ تھا کہ پاکستانی فاسٹ باؤلرز بری طرح ناکامی کا شکار ہوں گے۔
سری لنکا اور آسٹریلیا کے خلاف ساڑھے تین سو کے قریب رنز دینے کے ساتھ ساتھ بھارت اور افغانستان کے خلاف ہدف کے دفاع میں کہیں دفاع کی کوشش ہی نظر نہیں آئی۔ بات صرف فاسٹ باؤلرز تک ہی محدود نہیں، اسپنرز سے وابستہ خدشات بھی زور و شور سے پورے ہوتے جا رہے ہیں ۔
محمد نواز اور شاداب خان کے ساتھ ساتھ اسامہ میر بھی اوور میں دو تین اچھی گیندوں کے ساتھ ساتھ فل ٹاسز یا باؤنڈری بالز پھینکنا لازمی سمجھتے ہیں اور اگر کسی طرح یہ باؤلرز دو تین اچھے اوورز کر جائیں تو فیلڈنگ میں کچھ ایسا کر دیا جاتا ہے کہ مخالف ٹیم پر آیا سارا دباؤ پل بھر میں ختم ہو جاتا ہے۔
افغانستان کے خلاف پاکستانی ٹیم کی پلاننگ اور بابر کی کپتانی ناقص تھی، اس کا اندازہ صرف اس با ت لگایا جا سکتا ہے کہ 12 اوورز میں افغانستان کو 72 رنز درکار تھے اور گیند ریورس سوئنگ ہو رہی تھی،
بابر اعظم نے ایک اینڈ سے حارث رؤف اور دوسرے سے شاہین آفریدی کو باؤلنگ دی تو کرکٹ کمنٹیٹرز تذکرہ کر رہے تھے کہ یہاں میچ کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔ پاکستانی ٹیم شاہین اور حارث کی ریورس سوئنگ کے ساتھ میچ میں واپسی کر سکتی ہے۔ پاکستانی فاسٹ باؤلرز نے پچھلے میچز میں اور اس اننگ میں ابھی تک مایوس ہی کیا تھا
لیکن کرکٹ کمنٹیٹرز کی یہ بات بالکل درست لگ رہی تھی کہ اگر پاکستانی ٹیم کے پاس کوئی موقع تھا تو وہ شاہین اور حارث کے ذریعے ہی بن سکتا تھا۔ شاہین اور حارث نے ایک ایک اوور کیا اور اس وقت کمنٹیٹر کے ساتھ ساتھ شائقین بھی حیرت زدہ رہ گئے جب اگلا اوور کرنے شاداب خان آگئے۔
لیکن بابر اعظم ابھی سب کو مزید حیرت زدہ کرنے کا پروگرام بنا چکے تھے اور اسامہ میر کو باؤلنگ دے کر ایسا ہی کیا گیا۔ناقص باؤلنگ، نکمی فیلڈنگ, ٹیم ورک اور ٹیم اسپرٹ سے عاری اورناقص کپتانی سے پہلے پاکستانی ٹیم نے افغانستان کو ایک مناسب ہدف ضرور سیٹ کر دیا تھا، جس سے جیت کی امید لگائی جا سکتی تھی۔
ایک اچھے اور خلاف توقع عمدہ رفتار سے ملے آغاز کے بعد عبداللہ شفیق اور بابر اعظم کی پارٹنرشپ گو بہت زیادہ سست رہی لیکن رنز بنتے رہے۔ تقریباً سو کے اسٹرائیک ریٹ سے آغاز کرنے والے بابر اعظم کی نصف سنچری 69 گیندوں پر مکمل ہوئی۔کچھ ایسی ہی اننگ عبداللہ شفیق کی جانب سے دیکھنے کو ملی جو پاور پلے میں تو سو سے زائد کے اسٹرائیک ریٹ سے کھیلتے رہے لیکن جب آؤٹ ہوئے تو ان کا اسٹرائیک ریٹ 77 تک گر چکا تھا۔
امام الحق نےورلڈکپ کی پانچویں اننگز میں پانچویں بار ہک شاٹ کھیلتے ہوئے وکٹ گنوا ئی۔ شاداب خان اور افتخار احمد نے سیٹ ہونے میں کافی وقت تو لیا لیکن آخری اوورز میں اسکور کو 282 تک لے گئے۔
تکنیکی طور پر تو پاکستانی ٹیم ابھی تک سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر نہیں اور ایک بار پھر سے اگر مگر کے چکروں سے سیمی فائنل تک پہنچ سکتی ہے لیکن افغانستان نے پاکستان کو ورلڈ کپ کے اہم میچ میں آٹھ وکٹوں سے ہرا کر ورلڈ کپ کی دوڑ سے باہر کردیا ہے.
بھارت میں جاری کرکٹ ورلڈکپ میں گزشتہ روز پاکستان اور افغانستان کے مابین میچ میں افغانستان نے پاکستان کو آٹھ وکٹوں سے شکست دی۔ یہ افغانستان کی پاکستان کے خلاف پہلی کامیابی ہے۔ پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 282 رنز بنائے جسے افغان کرکٹ ٹیم نے 2 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کرلیا۔
افغانستان سے شکست کے بعد اب سیمی فائنل کی توقع رکھنا خود کو دھوکا دینے کے برابر ہے۔ نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ اس وقت بہترین کرکٹ کھیل رہی ہیں اور ان سے پاکستانی ٹیم کی جیت کسی معجزے سے کم نہیں ہوگی بلکہ اگر دیکھا جائے توبنگلہ دیش کے خلاف شکست کی توقع بھی رکھی جاسکتی ہے۔
ٹیم ورک اور ٹیم اسپرٹ سے عاری پاکستانی ٹیم سے ورلڈ کپ کے میچوں میں بہتر کارکردگی کی امیدیں خام خیالی ہے ,