تحریر : عبدالرحمن رضا
عام طور پر صحافی ہر میچ شروع ہونے سے 3گھنٹے قبل ہی اسٹیڈیم پہنچ جاتے ہیں، پاکستان اور بھارت مقابل ہوں تو ہر حال میں 4 گھنٹے پہلے پہنچنا ضروری ہوتا ہے،ایشیا کپ کیلیے پاکستان سے آئے ہوئے سپورٹس جرنلسٹس اعجاز وسیم باکھری،عبدالقادر خواجہ،ابوبکر بلال اور بلال عقیل کے ساتھ 12بجے گھر سے اسٹیڈیم روانہ ہوئے، اتوار کی چھٹی ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر رش کم ہی تھا، ایک بجے کے قریب اسٹیدیم کے باہر پہنچے تو سخت گرمی کے باوجود دونوں ٹیموں کی سپورٹرز کی بڑی تعدا پہلے سے موجود تھی، ٹی وی کےلیے کوریج کے بعد اسٹییڈیم کے اندر داخل ہوئے، میڈیا گیلری میں جاتے ہوئے لفٹ میں ہماری ملاقات وقار یونس سے ہوئی انہوں نے سینئر صحافی سہیل عمران سے پوچھا کہ آج حسنین کھیل رہا ہے یا حسن علی تو سہیل عمران نے کہا کہ میری معلومات کے مطابق حسنین کو آج موقع ملے گا، ان کی یہ خبر درست بھی ثابت ہوئی۔
میڈیا گیلری صحافیوں سے کچھا کھچ بھری ہوئی تھی ان میں زیادہ تعداد بھارتیوں کی تھی مگر پاکستانی بھی بڑی تعداد میں موجود تھے، دیگر ملکوں سے تعلق رکھنے والی بھی موجود تھے، جب پاکستان نے ٹاس جیتا تو میں نے بھارتی صحافیوں کا کہا کہ ٹاس جیتا مطلب میچ جیتا، بھارتی صحافیوں کا بھی اپنی ٹیم پر اتنا بھروسہ نہیں تھا،انہوں نے کہا کہ لگتا ہے آج آپ ہی جیتو گے، سٹیدیم کا ماحول ایسا تھا کہ 80 فیصد تماشائی بھارتی اور اپنی ٹیم کو بھرپور سپورٹ کر رہے تھے ، پاکستانی کم مگر جوش و خروش میں کوئی کمی نہیں تھی،میچ کے دوران یواے ای کی سڑکیں سنسان رہیں، ہر ریسٹورنٹ،شیشہ کیفے شائقین سے بھرا ہوا تھا، گھروں میں لاکھوں لوگ ٹی وی اور بڑی بڑی سکرینوں کے سامنے نظریں جمائے ہوئے تھے، پاکستان میچ جیتا تو دبئی کے مختلف علاقوں میں پاکستانی سڑکوں پر جشن مناتے دکھائی دیئے۔
قسمت بھی بہادروں کا ساتھ دیتی ہے، اس کا ثبوت پاک بھارت میچ میں بھی ملا،روہت شرما اور لوکیش راہول نے مسلسل سٹروکس سے نسیم شاہ کا اعتماد متزلزل کیا تو دیگر بولرز کو بھی رن ریٹ کم رکھنے میں آسانی ہوئی، اس وقت بابر اعظم نے سپنرز کو آزمانے کا فیصلہ کیا، اسٹروکس میں کمی آئی، وکٹیں بھی گرنا شروع ہوئیں،اس صورتحال میں پیسرز نے بھی جارح مزاج بھارتی بیٹرز کو لگام دی، وائیڈ بال پر باﺅنڈریز اور مس فیلڈنگ کی غلطیاں نہ ہوتیں تو بھارتی ٹیم کا ٹوٹل 160سے کم رہتا،محمد نواز نے عمدہ اسپن بولنگ سے حریف کی گولہ باری روکنے میں اہم کردار ادا کیا، انھوں نے ہر اوور میں ایک یا دو گیندیں ایسی کیں جن پر بیٹرز حیران اور پریشان ہوئے،ان کو اسٹروکس کھیلنے کے بجائے وکٹ بچانے کی فکر ہوئی۔
پاکستان کی بیٹنگ کے سب سے اہم ستون بابر اعظم کو بڑی اننگز کھیلنے میں دشواری ہوئی تو فخرزمان اور محمد رضوان کی صورت میں لیفٹ، رائٹ کمبی نیشن بولرز کیلیے پریشانی پیدا کرسکتا تھا مگر فخر اننگز کو طول نہیں دے سکے،اس صورتحال میں پاکستان نے بہادرانہ فیصلہ کرتے ہوئے ایک اور بائیں ہاتھ کے بیٹر محمد نواز کو کریز پر بھیجا، انہوں نے جارحانہ مگر سمجھداری سے سٹروکس کھیلتے ہوئے بھارتی بولنگ پلان کو تہس نہس کردیا، محمد رضوان نے پلاننگ کے مطابق ایک اینڈ سنبھالے رکھا، اس جوڑی کی رخصتی کے بعد دیگر بیٹرز کیلیے اتنا موقع تھا کہ فتح کی جانب سفر جاری رکھتے،آصف علی کا کیچ چھوڑنے پر ارشدیپ سنگھ زیرعتاب ہیں مگر ایسا نہ بھی ہوتا تو پاکستان کو کوئی نہ کوئی پاورہٹر مشن مکمل کرہی لیتا،گیندوں اور مطلوبہ رنز کا تناسب اتنا تھا کہ افتخار احمد اور شاداب خان بھی ایک، دو باﺅنڈریز کی مدد سے ہدف کا حصول ممکن بناسکتے تھے،اصل کام محمد نواز کرچکے تھے جنہوں نے بھارتی بولرز کی خوش فہمیاں دور کرتے ہوئے ان کی جارحیت کو دفاع میں تبدیل کیا۔