صوبائی ہاکی ایسوسی ایشن کے صدر سید ظاہر شاہ نے کہا ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ ایسوسی ایشن کو فنڈز انتیس جون کو دیتے ہیں دو دنوں میں کیا ٹورنامنٹ منعقد ہونگے، جعلی ڈاکومنٹ والے کوچ پر سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو لکھ بھی دیا ہے لیکن کچھ نہیں ہوا، ڈائریکٹریٹ میں اتنے زیادہ ملازمین ہیں جتنے سپورٹس ایسوسی ایشنز کے پاس کھلاڑی بھی نہیں یہ باتیں انہوں نے لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران کی. ہاکی اور دیگر کھیلوں کے زوال سے متعلق سوال پر سید ظاہر شاہ کا موقف تھا کہ ہاکی او ردیگر کھیلوں کی زوال کی بنیادی وجوہات بہت ساری ہے اور ان میں ڈائریکٹریٹ کی انوالومنٹ ہیں،ان کے مطابق پورے ملک میں جتنے ڈائریکٹریٹ کے ملازمین ہیں اس سے کہیں کم کھلاڑی ہیں
اچھی بات ہے کہ لوگوں کا روزگار ہیں لیکن میں خود سپورٹس کا سوچتا ہوں، اس پر بھی میرٹ ہونا چاہئیے، میں نے ہی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں جعلی ہاکی کوچ کے حوالے سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو لکھ کردیا کہ کلب لیول کا کھلاڑی بھی نہیں لیکن اسے سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے کوچ بھرتی کیا حالانکہ ہمارے پاس بین الاقوامی سطح کے کوچز ہیں اس بارے میں اخبارات میں بھی چھپ گیا لیکن کسی نے کوئی ایکشن تک نہیں، ایسے میں ہاکی کیا خاک فروغ پائے گی انہوں نے کہا کہ معاذ اللہ خان کے دور میں فنڈز نہیں تھا لیکن ایسوسی ایشن اور ڈائریکٹریٹ ایک پیج پر تھے وہ بیٹھ کر بات کرتے، موجودہ ڈی جی بھی یہی کرتے ہیں لیکن یہ صرف دس پرسنٹ ہے اگر پچاس پرسنٹ بھی کرے تو ہاکی سمیت تمام کھیل بدل جائیں گے
ان کے مطابق آج کل انفراسٹرکچر پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے سپورٹس پر پیسہ کم ہے، ایک سوال پر سید ظاہر شاہ کا کہنا تھا کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ انتیس جون کو سالانہ گرانٹس دیتے ہیں ایک دو دن میں کیا ہوتا ہے اسی طرح آدھا فنڈز ابھی لو اور آدھا چھ ماہ بعد یہ کونسا سلسلہ ہے، حالانکہ انہیں بیٹھ کر سالانہ کیلنڈر کھیلوں کے ایسوسی ایشن کے ساتھ بنانا چاہئیے کہ کس ماہ میں کونسا ٹورنامنٹ ہوگا تبھی کھیل فروغ پائے گی صوبائی صدر ہاکی ایسوسی ایشن سید ظاہر شاہ کے مطابق مہنگائی کی وجہ سے اب غریب بچے گراؤنڈز میں آتے نہیں روزانہ ایک سو روپے خرچہ کرکے کون گراؤنڈ آئے گا اور وہ بھی ایسی صورتحال میں جب آپ گراؤنڈز کو تالے لگا کر بیٹھ جائیں اور اس کے ٹھیکیدار بن جائے، ایسے میں کھلاڑی کیسے پیدا ہونگے ان کے مطابق سپورٹس ڈائریکٹریٹ سامان خریدتے ہیں کسی بھی ایسوسی ایشن کو یہ انوالو ہی نہیں کرتے ڈائریکٹریٹ کے افسران ڈی جی کے کانوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ سب ایسوسی ایشن والے چور ہیں، اور پرچیزنگ بھی ان کی کمیشن کی وجہ سی کی جاتی ہیں لیکن لیتے بھی کس معیار کا ہے اور کس کو دیتے ہیں
ممبران اسمبلی قابل احترام ہیں لیکن یہ ان کا کام نہیں،اگر سامان دینا بھی ہے تو ایسوسی ایشن کے ساتھ اپنے بندوں کو رکھیں اور مختلف اضلاع میں سامان تقسیم کریں تبھی کھلاڑی آئیں گے کھلاڑی تو ْمختلف ایسوسی ایشن کے پاس ہوتے ہیں ان کے پاس نہیں ہوتے لیکن یہاں پر یہ لوگ اپنی من مانی کرتے ہیں سید ظاہ شاہ کا کہنا تھا کہ پہلے سڑکوں کے انجنیئرز ہوتے تھے اب کھیلوں کے میدانوں کے انجنیئرز تک آگئے ہیں لیکن کس معیار کی بلڈنگ اور چیزیں بن رہی ہیں پہلے تو یہ انجنیئرز ونگ نہیں ہوا کرتی تھی لیکن سب کچھ معیاری تھا. صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے سید ظاہر شاہ کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخواہ کا تو یہ حال ہے کہ کھیلوں کے ایک مقابلے میں پینتیس ڈسٹرکٹ کے ہاکی ٹیمیں لائی گی حالانکہ ہم نے کہا کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے پاس صرف چودہ اضلاع ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ہیں، اور حال یہ تھا کہ جب مقابلے ہوئے تو مردان سے ایک ٹیم آئی، ٹی اے ڈی اے لے لیا اور کھیلے بغیر چلے گئی، ایسے میں ہاکی یا دیگر کھیلوں کے فرو غ کی باتیں خیالی باتیں ہیں.سید ظاہر شاہ کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس ہاکی کے گول کیپر کیلئے پیڈز تک نہیں جو کہ بنیادی ضرورت ہے اب یہ کون لے گا، ایسوسی ایشن کیا کیا چیز مینج کرے، سپورٹس ڈائریکٹریٹ والے کہتے ہیں کہ ہم خود کرینگے آپ نے خود دیکھا ہیں کہ یہ کیا کرتے ہیں.