پاکستان میں وزیراعظم کے ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کو بدانتظامی اور سیاسی مداخلت پر تنقید کا سامنا!
مسرت اللہ جان
پشاور.. پاکستان بھر میں کھیلوں کے نئے ٹیلنٹ کو تلاش کرنے اور ان کو پروان چڑھانے کی کوشش میں شروع کی جانیولے تین مختلف کھیلوں والی بال، فٹ بال اور ہاکی پر توجہ مرکوز کرنے والا وزیر اعظم کا ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام بدانتظامی اور سیاسی مداخلت کی وجہ سیتنقید کا نشانہ بن رہا ہے.یہ پروگرام جو نوجوان کھلاڑیوں کیلئے مواقع فراہم کرنے کا موقع ہونا چاہئیے تھا ایک متنازعہ معاملہ بن رہا ہے اور اس پروگرام میں ایک مخصوص سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاسی قائدین کی شرکت بھی تنقید کا باعث بن رہی ہیں.کیونکہ مختلف تعلیمی اداروں کے وابستہ افراد جو ان کھیلوں کے آرگنائزر بنے ہوئے ہیں ان سیاسی رابطوں کو اپنے لئے مستقبل میں استعمال کرسکتے ہیں جس سے ان کا کردار بھی متاثر ہوسکتا ہے.۔
کھیلوں سے وابستہ ناقدین کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخواہ (کے پی) میں کھلاڑیوں کے اانتخاب کا عمل تنازعات سے داغدار ہے۔ کے پی میں کھیلوں کی کمیونٹی سے وابستہ مستحق امیدواروں کو نظرانداز کرنے کے الزامات نے کھلاڑیوں انتخاب کے طریقہ کار کی منصفانہ ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔کیونکہ سلیکشن کے اس عمل میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کا بڑا کردار رہا جبکہ خیبر پختونخواہ میں کام کرنے والے کھیلوں کے کوچز کو یا تو سلیکشن کے عمل میں شامل ہی نہیں کیا یا پھر انہیں صرف کاغذات میں دستخط کرنے کی حد تک شامل کیا گیا.بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ کہ کچھ نام من مانے طور پر ڈالے گئے، جس میں مقامی کھیلوں سے تعلق رکھنے والے ایکسپرٹ کو نظر انداز کیا گیا جنہیں کھلاڑیوں کے انتخاب کے عمل میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔
اس پروگرام میں شفافیت ایک بڑی تشویش کے طور پر ابھررہی ہے کیونکہ مختص کیے گئے فنڈز اور ان کے استعمال کا کوئی واضح حساب کتاب نہیں ہے۔ کہ ان پروگراموں کیلئے کتنی رقم مختص کی گئی تھی اور اس میں اخراجات کتنے آئے.کیونکہ یہ رقم کسی خاص سیاسی پارٹی کی نہیں بلکہ عوامی ٹیکسوں کا پیسہ ہے.سپورٹس ٹیلنٹ ہنٹ کے اس پروگراموں میں ایونٹ مینجمنٹ کے حوالے سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ناتجربہ کار افراد نے پروگرام کی نگرانی کے لیے ٹھیکے حاصل کیے ہیں، جس سے ایونٹ آرگنائزیشن میں ان کی مہارت کی کمی کو ظاہر ہوتا ہے۔ کچھ منتظمین کی صلاحیتوں کو شکوک و شبہات نے گھیر لیا ہے جو ان کھیلوں سے ناواقف دکھائی دیتے ہیں جن کا انتظام انہیں سونپا گیا، حالانکہ وہ ان کھیلوں کے حوالے سے ایکسپرٹ بھی نہیں تھے.کیونکہ بعض مقامات پر تقریبات کے دوران اہلکاروں کے بیٹھنے کے انتظامات ناکافی رہے ہیں۔ جبکہ پہلے اور آخری دنوں میں بیٹھنے کی سہولت دستیاب تھی، مڈ ڈے میں مناسب انتظامات کا فقدان دیکھا گیا، جو تفصیل پر توجہ کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
مپائرز، جو منصفانہ کھیل کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں، مبینہ طور پر اپنے فرائض کو مؤثر طریقے سے نبھانے کے لیئے انہیں کٹس فراہم نہیں کی گئی تھی اور وہ اپنے ہی کٹس میں کھیل کھلاتے دکھائی دئییاور ایسا لگتا ہے کہ یہ پروگرام اپنے بنیادی مقصد یعنی نئے ٹیلنٹ کو دریافت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک ہی افراد کو متعدد کھیلوں میں حصہ لینے کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔کیونکہ ہاکی اور فٹ بال میں ایک ہی کھلاڑی دکھائی دئیے ایسے میں نیا ٹیلنٹ کیسے سامنے آئیگا حالانکہ ہاکی اور فٹ بال کیلئے الگ الگ فنڈز جاری کئے گئے اور اس کا بنیادی مقصد پندرہ سے پچیس سال کی عمر تک نئے ٹیلنٹ کو مواقع دینا تھا لیکن ایک ہی کھلاڑی کے متعدد کھیلوں میں انتخاب کی وجہ سے صرف ٹیکس دہندگان کے قیمتی فنڈز ضائع ہوگئے جس کے بارے میں کسی کو پروا ہی نہیں.
جیسے جیسے تنقید بڑھ رہی ہے اور بدانتظامی اور سیاسی مداخلت کے الزامات سامنے آرہے ہیں وزیراعظم کے ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کو عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ایک مشکل جنگ کا سامنا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت کو فوری کارروائی کی ضرورت ہے، شفافیت، انصاف پسندی، اور پاکستان کے کونے کونے سے نوجوان کھلاڑیوں کو آگے لانے کیلئے سخت اقدامات کی ضرورت ہے تب ہی یہ پروگرام قوم کے لیے کھیلوں کے روشن مستقبل کو پروان چڑھانے کے اپنے عظیم وژن کو حقیقی معنوں میں عملی شکل دے سکتا ہے۔