فغان ٹیم اور تماشائی ہار برداشت کرنا بھی سکیھیں
ایشیا کپ ٹی ٹوئنٹی کے سپر فور مرحلے میں پاکستان نے سنسنی خیز مقابلے میں افغانستان کو ایک وکٹ سے شکست دی، نسیم شاہ کے مسلسل دو چھکوں نے گرین شرٹس کو فائنل میں پہنچا دیا جبکہ افغانی کرکٹرز کے آنسو چھلک پڑے، فتح و شکست کھیل کا حصہ ہے مگر میچ کے بعد میں افغان تماشائیوں کے طوفان بدتمیزی نے کھیل کے حسن پر داغ لگایا،شارجہ اسٹیڈیم میں توڑ پھوڑ اور تشدد کی ویڈیوز میں دیکھے جانے والے مناظر افسوسناک تھے،کرسیاں توڑ کر پاکستانی مداحوں کی طرف پھینکی گئیں، کچھ لوگ حملہ آور بھی ہوئے،افغان تماشائیوں کی طرف سے بدتمیزی کا یہ پہلا واقعہ نہیں، گزشتہ چند برس میں پاکستان ٹیم کے میچز میں ہنگامہ آرائی کی جاتی رہی.
ورلڈ کپ 2019 میں لیڈز میں ہلڑ بازی کی گئی، دبئی میں گزشتہ برس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی ناخوشگوار صورتحال پیدا ہوئی، اب یہ تازہ واقعہ بھی سامنے آیا جو زیادہ پر تشدد اور خوفناک تھا، پاکستان نے بجا طور سخت الفاظ میں احتجاج ریکارڈ کرانے کا فیصلہ کیا ہے، چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ نے کہا کہ شریفوں کے کھیل میں ہلڑ بازی نہیں ہونا چاہیے، ہماری ٹیم کو بھی خطرہ ہوسکتا تھا، اس طرح کے مناظر افسوسناک ہیں۔ یاد رہے کی میچ کے 19 ویں اوور میں فرید احمد نے آصف علی کو آئوٹ کرنے کے بعد غیر شائستہ زبان استعمال کی اور نازیبا اشارے بھی کیے جواب میں آصف علی نے بیٹ بھی اٹھایا، اس دوران دیگر کھلاڑیوں اور فیلڈ امپائر نے بیچ بچاو¿ کرادیا، میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ نے دونوں کو طلب کیا، میچ کا 25 فیصد جرمانہ بھی عائد کیا گیا،یوں یہ میچ کئی حوالوں سے موضوع بحث بنا رہا، سابق کرکٹرز بھی افغان کھلاڑیوں اور تماشائیوں کے رویہ پر برہم ہیں، سابق کپتان جاوید میانداد نے کھل کر جارحانہ اسٹروکس کھیلے، انہوں نے کہا کہ ابھی افغانستان کو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے کرکٹ میں آئے، اب ہمیں آنکھیں دکھائیں گے، افغانستان کو لانے اور کھلانے والے ہم ہیں، کرکٹ بہت کم کھیلی لیکن ابھی سے ہی دماغ خراب ہیں، کرکٹ سیکھو،اور کرکٹر بنو،خود کو سپر سٹار نہ سمجھو، شعیب اختر نے بھی درست کہا کہ کھیل کو اس کی روح کے مطابق ہی کھیلا جانا چاہیے، پاکستان نے ہمیشہ افغان بھائیوں کا مشکل وقت میں ساتھ دیا لیکن کھیل میں ایسے انداز ناقابل قبول ہیں،آپ آصف علی کو آؤٹ کرکے دھکا مار رہے ہو، کرکٹ کھیلو، جوش دکھاؤ لیکن بدتمیزی نہ کرو،اس لیے اللہ نے بھی آپ کو سزا دی، ٹیم اور عوام کو ہار برداشت کرنا سیکھنا ہوگا۔کرکٹ میں ایک ایک گیند کے ساتھ کروڑوں دل دھڑکتے ہیں، شائقین ہی نہیں قومیں بھی ایک دوسرے کے قریب آتی ہیں، کھیل جیت پر مزید کوشش کرنے اور ہار کو برداشت کرتے ہوئے نئے عزم کے ساتھ میدان میں اترنے کا سبق ہی تو دیتے ہیں، تماشائی یا کھلاڑی اس کو انا کا مسئلہ بنا لیں کھیل کا حسن گہنا جاتا ہے، افغانستان کو بھی یہ سبق سیکھنا ہوگا۔