تحریر: محمد اصغر عظیم
کھیل کا کسی مذہب سے نہیں انسانیت سے تعلق ہے لیکن قومی ٹیم کے کوچ، کپتان، نائب کپتان اور کھلاڑیوں کی پریس کانفرنس سنیں تو ایسا لگے گا کہ دوسرے ممالک کی ٹیموں میں کوئی مسلمان کھیلتا ہی نہیں، پاکستان کرکٹ بورڈ اگر چاہتا ہے کہ ٹیم جیت کی راہ پر چلیں تو مذہب سے کھیل کو الگ کرکے انہیں مسلمان کھلاڑی بنائیں جو اپنی پرفارمینس کی بنیاد پر تیکنیکی انداز سے گفتگو کریں، ٹیم کے لئے اتناہی کافی ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ٹیم ہے، دعا کے لئے کرکٹ لورز پاکستانی قوم اور علماء دین موجود ہیں، محمد رضوان، بابر اعظم اور اب ثقلین مشتاق سب کے سب شکست پر اللہ رسول اور دین کی تبلیغ شروع کر دیتے ہیں کیا ہاشم آملہ، معین علی، راشد، عمران طاہر اور بہت سے مسلمان کرکٹرز نے کبھی اپنی ٹیم کی شکست پر مذہب کا استعمال کیا یقیناً نہیں۔۔۔۔
کیونکہ وہ اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر کھیلتے ہیں ناکامی پر مذہب کی چادر میں نہیں چھپتے، کیا گرین شرٹس کے لئے اتنا کافی نہیں کہ آپ جتنی چاہیں پرچی لگائیں لیکن اس وقت تک ٹیم کا حصہ نہیں بن سکتے جب تک اللہ کی رضا شامل نہ ہو، اللہ کی رضا سے جب ٹیم کا حصہ بن گئے تو کیا اب اللہ ہی پرفارمینس کے لئے بولے گا یا اپنی بھی کوئی زمہ داری ہے، کھلاڑی اپنی زمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ٹیم میں اپنی شمولیت کو اللہ کی امانت سمجھیں اور سو فیصد کارکردگی سے ثابت کریں اللہ نے جو اس پر کرم کیا وہ اس کا اہل تھا۔۔۔ کیونکہ اللہ تو سب کا ہے کوئی اسے خدا کہتا ہے تو کوئی بھگوان لیکن درحقیقت اللہ سب کا ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ دوسرے ممالک کی ٹیمیں جیتتی رہے اور ہم شکست پر اللہ اللہ کرتے رہیں،