ہاکی سٹیڈیم غیر معیاری کام، مراسلہ اور بند آنکھیں

مسرت اللہ جان

خیبر پختونخواہ ہاکی ایسوسی ایشن نے پشاور کے لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم میں نئے بننے والے ہاکی آسٹرو ٹرف کے غیر معیاری ہونے کے حوالے سے پاکستان سپورٹس بورڈ اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل کو خط لکھ دیا ہے بائیس فروری2023کو بھیجے گئے مراسلے میں خیبر پختونخواہ ہاکی ایسوسی ایشن کے صدر سید ظاہر شاہ کا موقف ہے کہ نئے بننے والے آسٹرو ٹرف میں غیر معیاری کام ہوا ہے، پانی کی سپلائی کیلئے لگائے گئے سپرنکلزغیر معیاری ہیں اور ایک ماہ کے اندر خراب ہوچکے ہیں اسی طرح ٹرف پر بنے رنکلز ختم ہی نہیں ہورہے حالانکہ ایک ماہ سے زائد کھلاڑیوں کے کھیلنے کے باوجود اسے ختم کیا جانا چاہئیے تھا اسی طرح گول پوسٹ کے پیچھے لگائے گئے جال مرغیوں کے جالی کی طرح کے ہیں جو کہ غیر معیاری ہے سید ظاہر شاہ نے اس معاملے کی انکوائری کیلئے ایکسپرٹ ٹیم کی خدمات لینے پر بھی زور دیا ہے.ساتھ میں انہوں نے اس منصوبے کی پی سی ون کو بھی منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ اس پر کتنے کروڑ روپے لگائے گئے اور اس منصوبے میں کون کونسے کام کرائے گئے ہیں.یہ خط ڈائریکٹر جنرل سپورٹس پاکستان سپورٹس بورڈ کو بھیجا گیا ہے جس پر ابھی تک ان کا موقف نہیں آیا نہ ہی اس حوالے سے کوئی یقین دہانی کرائی گئی کہ اس معاملے پر وفاقی حکومت کا ادارہ پاکستان سپورٹس بورڈ کیا اقدامات اٹھائے گا.

 

 

 

پاکستان سپورٹس بورڈ نے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے کینیڈین نژاد کنٹریکٹر ڈاکٹرندیم کو ٹھیکہ دیا تھا اور یہ تین ماہ میں مکمل کیا جانا تھا سات جنوری 2022کو اکھاڑے جانیوالے اس ٹرف کو مئی 2022 میں مکمل کیا جانا تھا لیکن حیرت انگیز طور پر یہ منصوبہ دسمبر 2022 میں مکمل کیا گیا ٹرف کی بیس میں بھی غیر معیاری کام ہوا جس کی وجہ سے بعض مقامات پر ٹرف اوپر نیچے ہیں اور پانی کھڑا ہونے کی شکایت عام ہیں.کنٹریکٹر نے تین ماہ کا منصوبہ ایک سال میں مکمل کرنے کے بعد بھی یہ حال کردیا ہے کہ ایک ماہ استعمال کے بعدلالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم کے آسٹرو ٹرف پر سوالات اٹھنے لگے ہیں اور یہ سوالات بھی اس کھیل سے وابستہ ایسوسی ایشن نے ہی اٹھائے ہیں.

 

 

 

 

جنوری 2022سے لیکر دسمبر 2022 تک راقم انہی صفحات پر پاکستان سپورٹس بورڈ اور صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کو آسٹرو ٹرف میں پائے جانیوالے نقائص کے حوالے سے آگاہ بھی کر چکا ہے اور اس حوالے سے تصاویر اور ویڈیوز بھی موجود ہیں مگر مجال ہے کہ وفاقی ادارے سمیت صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے اس معاملے میں دلچسپی ظاہر کی ہو یا ا س حوالے سے معلومات لینے کی کوشش کی کہ عوامی ٹیکسوں کا پیسہ کس کے جیب میں جارہا ہے اور کس نوعیت کا منصوبہ مکمل کیا جارہا ہے. جس وقت یہ منصوبہ شروع کیا جارہا تھا اس وقت پشاور جسے نہ صرف صوبائی دارالحکومت کا اعزاز حاصل ہے اس وقت یہاں پر کھیلنے والے کھلاڑیوں کی تعداد 80 کے قریب تھی جبکہ اب یہاں پرآنیوالے کھلاڑیوں کی تعداد کم و بیش پچاس ہوگئی ہیں یعنی گراؤنڈز تو بنائے جارہے ہیں لیکن کھلاڑیوں پر کوئی توجہ نہیں اور گراؤنڈز پر ایسے کہ صرف ایک ماہ میں اس پر سوالیہ نشان اٹھنے لگے ہیں.

 

 

 

 

ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے اور اس کے فروغ کیلئے کوشاں ہے یہ وہ نعرہ اور جملہ ہے جو زیادہ تر سپورٹس کے شعبے سے وابستہ بیورو کریٹ اور اس شعبے کے وزراء ہم ٹی وی چینل پر یا مائیک پر آکر بڑے دھڑلے سے کہتے ہیں.مگر ان کے اقدامات ایسے ہوتے ہیں کہ ہاکی کے کھیل سمیت تمام کھیلوں کو ختم کرنے کیلئے شائد انہیں بھرتی کیا گیا ہو، سال 2021 میں کے پی ہاکی لیگ کا واحد پروگرام تھاجس میں صوبے کے مختلف اضلاع کی ٹیموں نے حصہ لیا، اور نئے کھلاڑی سامنے لائے گئے، اور یہ حکومتی سطح پر ہونیوالا تبدیلی والی سرکار کا پہلا اور آخری ٹورنامنٹ تھا جس کے بعد سال 2022 بھی خاموشی سے گزر گیا اور اب سال 2023 بھی چل رہا ہے اور جس طرح کے حالات سے ہیں اس سے یہی لگ رہا ہے کہ انشاء اللہ سال 2023 میں بھی ہاکی کا کوئی ٹورنامنٹ صوبائی سطح پر کہیں کھیلنے کو نہیں ملے گا.

 

 

 

 

سابق دور حکومت میں بننے والے آسٹرو ٹرف اور ہاکی سٹیڈیم بنانے کے دعوے تو بہت کئے جاتے ہیں کہ ہم نے گراؤنڈز بنا لئے ہیں مگر کس طرح بنائے گئے اس کا اندازہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور سمیت عبدالولی خان سپورٹس کمپلیکس، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں میں بننے والے ہاکی کے ٹرف اور سول ورک سے بخوبی کیا جاسکتا ہے مزے کی بات یہ ہے کہ خیبر پختونخواہ میں تبدیلی والی سرکار نے انوکھے تجربے کے تحت ایک ہی سٹیڈیم دو کنٹریکٹر کو دئیے یعنی آسٹرو ٹرف کو بچھانے کا کام ایک کنٹریکٹر کو اور سول ورک کا کام دوسر ے کنٹریکٹر کو دیا گیا، تاکہ دونوں کنٹریکٹر ایک دوسر ے پر الزام تراشی کریں اور کھیلوں کے شعبے سے وابستہ بڑے بیورو کریٹ پر الزام ہی نہ آئے. ویسے بھی ایک کنٹریکٹر کے مقابلے میں دو کنٹریکٹر سے ” َخرچہ پانی ” زیادہ ملتا ہے. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان سپورٹس بورڈ جنہوں نے یہ ٹھیکہ ایک غیر ملکی کنٹریکٹر کو دیا تھا اور جسے ابھی تک متعلقہ ڈائریکٹریٹ کے حوالے بھی نہیں کیا گیا کیا ان کے انجنیئرز نے اس کی منظوری دیدی یا پھر صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ جہاں پر کھیلوں کے گراؤنڈز معیاری بنانے کیلئے ایک الگ ونگ ہے وہاں پر تعینات افسران نے کبھی غلطی سے ہاکی کے ان گراؤنڈز کی چیکنگ بھی کی ہیں یا نہیں..جس طرح کے گراؤنڈز اور سول ورک ہوا ہے تو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یا تو ان کے آنکھوں پر پٹیاں باندھی گئی تھی یا پھر انہیں "چمک” نے آنکھیں بند کرنے پر مجبور کیا تھا جو مسلسل ایک کے بعد دوسرے گراؤنڈز کی غیر معیاری ہونے کی اطلاعات آرہی ہیں.حیران کن بات یہ ہے کہ ہاکی سٹیڈیم کی تعمیر اور ٹرف کی انسٹالیشن میں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ اور وفاقی ادارے پی ایس بی دونوں نے اپنی بھرپور غفلت کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے آج یہ صورتحال ہے حالانکہ کھیلوں کے فروغ کے دعویدار دونوں میں بیٹھے افسران اور بیوروکریٹس اس بات کی تنخواہیں لیتے ہیں کہ کھیلوں کے فروغ سمیت معیاری کام کو یقینی بنائیں گے.یہ سب کچھ ان لوگوں کے دور میں کیا گیا جو اپنے آپ کو پاکستان میں سب سے زیادہ ایماندار، اور مدینہ کی ریاست کے ٹھیکیدار بتاتے ہیں. جس سے اس بات کی نشاندہی بھی ہوتی ہے کہ دوغلے پن کی انتہا کرنے والوں نے کھیلوں کے شعبے میں بھی کرپشن کی وہ انتہا کی ہے کہ اس پربھی پوری کتاب لکھی جاسکتی ہیں.

 

 

 

 

ویسے کھیلوں کی مختلف ایسوسی ایشن، اولمپک اور کھیلوں سے وابستہ افراد کیا اس پر اپنا احتجاج ریکارڈ کریں گے کہ کروڑوں روپے کے حساب سے لئے جانیوالے ان کنٹریکٹ کا بھی احتساب کیا جائے کہ انہوں نے کس طرح قومی خزانے کو لوٹتے ہوئے غیر معیاری کام کیا. کھیلوں کے شعبے سے وابستہ صحافی بھی اس جرم سنگین میں ان کے ساتھی ہیں کہ جو کم ازکم یہ آواز تو اٹھاسکتے ہیں کہ کھیلوں کے شعبے میں ہونیوالی کرپشن پورے نوجوان طبقے کو برباد کرنے کے مترادف ہے کیونکہ صرف کھیلوں کے مقابلوں کی کوریج ہی صحافت نہیں بلکہ اس شعبے میں ہونیوالے ہر چیز کی رپورٹنگ انہی صحافیوں کا کام ہے. ایک طرف کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد نہیں ہورہا، دوسری طرف کھیلوں کا سامان سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے پاس موجود نہیں اور تیسری طرف ہاکی کے جو سٹیڈیم بنائے گئے ہیں وہ انتہائی غیر معیاری اور بدتر ہیں کیہ الگ بات کہ اس میں کمیشن بہت ساروں کو مل گیا اور بہت ساروں کے بھوکے پیٹوں کو کچھ دنوں کیلئے خوراک مل گئی لیکن کرپشن کی کمائی کھانے والے یہ بات بھول گئے ہیں کہ انہیں اس دنیا میں بھی اس کا حساب دینا ہے اسی طرح اخرت میں بھی اس کا حساب دینا ہوگا جہاں پر آڈٹ بھی بلاتخصیص کے ہوگا اوروہاں پر آڈٹ پیرا”کروڑوں "دیکر جان خلاصی بھی نہیں ہوگی

error: Content is protected !!