عبداللہ رند نے گولڈ میڈل جیت کر اپنے صوبہ بلوچستان کے نام کردیا ۔

عبداللہ رند نے گولڈ میڈل جیت کر اپنے صوبہ بلوچستان کے نام کردیا ۔
بلوچستان کے کسی بھی شعبے میں باصلاحیت نوجوانوں کی کمی نہیں ہیں بس انہیں سپورٹ کرنے والا کوئی نہیں ہے اسپورٹس کی دنیا سے وابستہ ایک نوجوان سابق انٹرنیشنل کھلاڑی عبداللہ رند جو کسی تعارف کا محتاج نہیں۔

عبداللہ رند نے باکسنگ کا آغاز 18سال کی عمر میں 1993 کو تنظیم ہدہ کلب سے آغاز کیا۔ اور 2 سال تک اسی کلب سے وابستہ رہا عبداللہ رند نے اپنی محنت جاری رکھتے ہوئے اپنی زندگی کا پہلا مقابلہ آل بلوچستان ٹورنامنٹ سے کیا یہ ایونٹ بلوچستان کے سرحدی شہرچمن میں منعقد ہوئی

جس میں اس نے سلور میڈل اپنے نام کیا جب پہلی بار کوئی کھلاڑی رنگ میں اتر کر کوئی میڈل جیت لیتا ہے تو اس کی حوصلہ مزید بلند ہو جاتا ہے

اسی طرح آل بلوچستان مقابلے میں جب عبداللہ نے سلور میڈل جیتا تو اس کے دل میں مزید آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوا اس کے بعد اسی سال 11 نومبر کو آل پاکستان باکسنگ مقابلہ کراچی میں منعقد ہوئی۔

جس میں عبداللہ رند نے گولڈ میڈل جیت کر اپنے پسماندہ صوبہ بلوچستان کے نام کردیا اور اس کے ساتھ بہترین فائٹ پیش کرنے پر اس کو 2ہزار روپے بھی بطور انعام دیا گیا

یہ اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز تھا اس کے بعد وہ بلوچستان کے مختلف ایونٹس میں حصہ لیتا رہا اور کامیابیاں سمیٹتا گیا

ہر ایونٹ میں وہ 48 ویٹ کے تمام باکسروں کو مات دے کر گولڈ میڈل جیتا گیا۔ اس کے بعد وہ لاہور میں پہلی بار 1997 کو انٹرنیشنل ایونٹ کا حصہ بنا عبداللہ رند جس انٹرنیشنل ایونٹ کے لئے اتنا محنت کر رہا تھا

آخر کار وہ اس ٹورنامنٹ کے رنگ میں پہنچ گیا۔اس کا مقصد لوکل نیشنل نہیں بلکہ اس کی نظریں انٹر نیشنل گیمز پر تھا آخر کار وہ لاہور کے انٹرنیشنل ایونٹ میں مختلف ممالک کے کھلاڑیوں سے مقابلہ کرکے اپنے چٹانوں سے بلند جذبہ اور سخت محنت کی بدولت گولڈ میڈل اپنے نام کر لیا۔

 

یہ جیت اس کی زندگی کا ایک خواب تھا جو پورا ہوگیا کیونکہ انٹرنیشنل کھلاڑیوں سے جیتنا آسان کام نہیں اس کے بعد عبداللہ رند نے 1998 کے نیشنل گیمز میں سلور میڈل اپنے نام کرلیا کیونکہ وہ اپنی قابلیت اور نئے ٹیکنک پر سامنے والے کھلاڑیوں پرہمیشہ بھاری پڑتا تھا۔

1999 کو نیشنل بینک کے منعقد کردہ آل پاکستان ٹورنامنٹ میں گولڈ میڈل جیت لیا 1999 کو واپڈا کے ٹورنامنٹ میں بھی اس نے گولڈ میڈل اپنے نام کر لیا تھا

اورریلوے انڈرڈویڑن میں بھی3بار گولڈ میڈل اپنے نام کرچکے ہیں۔اور بلوچستان میں کئی جشن آزادی اور23مارچ کے پروگراموں میں بھی گولڈمیڈلز اپنے نام کرچکے ہیں 2002 کو نیشنل چیمپئن شپ کا میدان راولپنڈی میں سج گیا۔

اس میں بھی عبداللہ رند کو کھیلنے کا موقع ملا دلچسپ مقابلے کے بعد اس ایونٹ میں بھی اس نے سلور میڈل جیت لیا۔

تنا تمغہ جیتنے کے بعد عبد اللہ رند کو اپنے ہی صوبے میں کوئی حوصلہ افزائی نہیں ملی جس سے وہ مایوس ہو کر اسپورٹس کی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کی 13 سال دور رہنے کے بعد پھر باکسنگ سے وابستہ اس کے دوستوں نے اس کو دوبارہ 2015 میں پروفیشنل باکسنگ کے کوچنگ کے لئے آمادہ کروایا وہ دوبارہ اپنے کھیلوں کی سرگرمیاں شروع کر دی اسکے کوچنگ میں ان کے شاگردوں نے ملک کے مختلف صوبوں سے فائٹ جیت کر بیلٹ اپنے صوبے کے نام کروا چکے ہیں۔2017 کوتائی لینڈ سے پروفیشنل باکسنگ کا ایک کورس پاکستان میں منعقد ہوا عبداللہ رند نے وہ کورس مکمل کر کے آجکل وہ کوچنگ کے ساتھ ساتھ ریفری اور ججنگ کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے اور ساتھ میں اپنا 14 سالہ بیٹے کو بھی انٹرنیشنل مقابلوں کے لیے ٹریننگ دے رہا ہے

error: Content is protected !!