بدانتظامی اور جانبداری،وزیراعظم کے ٹیلنٹ ہنٹ فیمیل فٹ بال پروگرام پر عوامی فنڈز کا ضیاع
مسرت اللہ جان
خیبر پختونخواہ میں وزیر اعظم کا ٹیلنٹ ہنٹ اسپورٹس پروگرام برائے خواتین فٹ بالر بدانتظامی اور جانبداری کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بن رہا ہے کیونکہ اس پر عوامی فنڈز کے غلط استعمال سمیت پرانے کھلاڑیوں کو لانے کی باتیں چل ہی ہیں یہ پروگرام جس کا مقصد نوجوان ٹیلنٹ کو فروغ دینا اور فٹ بال کی مہارتوں کو پروان چڑھانا ہے، خواتین کھلاڑیوں کے متعصبانہ انتخاب اور نئے ٹیلنٹ کو نظر انداز کرنے کے متعدد الزامات سے متاثر ہوا ہے۔جس کی شکایت بنوں،چترال اور چارسدہ میں فیمیل کھلاڑیوں نے بھی کی.
ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے تعاون سے منعقد ہونے والے فٹ بال پروگرام کو فٹ بال کے خواہشمند کھلاڑیوں کے لیے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے اور اعلیٰ سطح پر مقابلہ کرنے کا پلیٹ فارم کرنا تھا تاہم یہ بات فٹ بال کے میچز کے دورا ن عیاں ہوگئی کہ فیمیل کھلاڑیوں کا انتخاب کا عمل ناقص رہا جس میں پسندیدہ کھلاڑیوں کو مستحق امیدواروں پر ترجیح دی جاتی رہی نئے کھلاڑی جن کے پاس صلاحیت تھی، انہیں کھلم کھلا نظر انداز کر دیا گیا، جس سے بیشتر خواتین فٹ بالر مایوس نظر آئی.اس تنازعہ میں اضافہ کرتے ہوئے، ابتدائی طور پرہاکی ٹیلنٹ پروگرام کے لیے منتخب ہونے والی خواتین کھلاڑیوں کو غیر واضح طور پر فٹ بال میں منتقل کر دیا گیا، جس سے شفافیت اور منصفانہ سلوک پر سوالات اٹھ رہے تھے۔میچوں کے دوران یہ بات عیاں تھی کہ منتظمین منصفانہ مقابلے کو یقینی بنانے کے بجائے مردان اپنے آبائی شہر کی ٹیم کو سپورٹ کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے۔
وزیر اعظم کے ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کے بینرز کھیلوں کے ایونٹ کے جوہر طرف چھائے ہوئے تھے اور اختتامی تقریب میں آرگنائزر بھی کھلاڑیوں کو آخری وقت میں تصاویر میں بینرز کو نمایاں لانے کیلئے سمت تبدیل کرنے پر زور دیتی رہی.فٹ بال فیمیل کے اختتامی تقریب میں خواتین کھلاڑیوں کو میڈلز نہیں دی گئی جبکہ جو ٹرافیاں انہیں دی گئی تھی وہ عام دکانوں سے حاصل کی گئی تھی او راس پر کہیں لکھا ہوا نہیں تھا کہ یہ ٹرافیاں وزیراعظم ٹیلنٹ ہنٹ سپورٹ پروگرام کی ہیں حالانکہ مردوں کے فٹ بال کے فاتحین کیلئے میڈلزاور بہترین ٹرافیاں بنائی گئی.یہ ٹرافیوں کے لیے 75 ہزار روپے کے بجٹ مختص ہونے کے باوجود خواتین کھلاڑیوں کے ساتھ اس طرح کی بے عزتی صنفی مساوات اور کھیلوں میں نمائندگی کے بارے میں خدشات کو جنم دیتی ہے۔
میچز کے دوران آفیشلز اور ریفریز کے انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے مزید بدانتظامی واضح رہی ایمپائرز پینے کیلئے پانی کیلئے خوار ہوتے رہے اور ان کیلئے پانی کا کوئی انتظام نہیں تھا جس کی شکایت امپائر بھی کرتے رہے اسی طرح انہیں کوئی کٹس بھی نہیں دی گئی تھی انھیں کھلاڑیوں کے کولر سے پینے کا پانی لینا پڑتا تھا۔ بنیادی سہولیات کا یہ فقدان نہ صرف ایونٹ کی تنظیم پر برا اثر ڈالتا ہے بلکہ کھلاڑیوں کی حفاظت کو بھی خطرے میں ڈالتا ہے۔یہاں تک کہ اختتامی تقریب میں بھی افراتفری مچ گئی کیونکہ ٹیم مینیجرز پر آرگنائزر کو اعتماد نہیں تھا اسی بناء پر بعض صحافیوں اور کچھ لوگوں کو انعامات دینے کا کہا گیا.اختتامی تقریب میں کوئی مہمان خصوصی نہیں تھا اور ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر چارسدہ جو کہ میزبان تھے کو آخری وقت میں مہمان خصوصی بنایا گیا کہ کوئی پروگرام کو آنے کیلئے تیار نہیں تھا.یہ غیر پیشہ ورانہ رویہ ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کو متاثر کررہا تھا اور ایسے پروگراموں کے انعقاد سے ذمہ داروں کی ساکھ پر سوالیہ نشان بنا رہا تھا
اسی طرح بعض کھلاڑیوں کو یہ کہہ کر مقابلوں سے روک دیا گیا کہ وہ کہیں پر ملازم تھے، حالانکہ جن لوگوں نے سلیکشن کی تھی انہی نے اعتراض اٹھایا جس سے یہ سوال اٹھنے لگا کہ کیا سلیکشن کے وقت تمام سلیکٹرز سوئے ہوئے تھے.اسی بناء پر ٹی اے ڈی دینے سے انکار کیا گیا لیکن جب سوات کی ٹیم میں دوسری خاتون ملازمہ کا پتہ چلا تو پھر پابندی کا شکار کھلاڑی کو بھی کھیلنے کا موقع دیا گیا.جب اس بار ے میں وضاحت کے لیے فٹ بال فیمیل کی منتظم سے رابطہ کیا گیا تو ایک دن کے بعد دئیے جانیوالے پروگرام کی منتظمہ کا موقف تھا کہ صر ف فٹ بال کی طرف ہی کیوں توجہ دے جارہی ہے ہاکی اور والی بال کے کھیل پر کیوں توجہ نہیں دی جارہی،، منتظمہ کے مطابق وہ کسی کو جواب دہ نہیں اور صرف ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو اس بارے میں جواب دہ ہے ان کا یہ موقف اس معاملے میں جوابدہی اور شفافیت کا فقدان ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے قدم اٹھانے اور مبینہ بدانتظامی کی تحقیقات کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔
وزیراعظم کا ٹیلنٹ ہنٹ فٹ بال پروگرام نوجوان کھلاڑیوں کے لیے امید کی کرن بننا تھا، لیکن یہ بدانتظامی، جانبداری اور عوامی فنڈز کے ضیاع کی مایوس کن کہانی میں تبدیل ہو گیا ہے۔ ایچ ای سی کو ان مسائل کو درست کرنے کے لیے فوری کارروائی کرنی چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ مستقبل کے کھیلوں کے پروگرام پیشہ ورانہ اور منصفانہ طور پر متعلقہ اسپورٹس ایسوسی ایشنز کے ذریعے منعقد کیے جائیں کیونکہ انہیں جونئیر اور سینئر کھلاڑیوں سمیت نئے کھلاڑیوں کے بارے میں بھی پتہ ہوتا ہے اور وہ اس طرح کے پروگراموں کو بہترین طور پر آرگنائز بھی کرتی ہیں اور ٹرائلز اور ایونٹ مینجمنٹ کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں۔ تب ہی ملک کی کھیلوں کی صلاحیتوں کی حقیقی صلاحیت کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔